پیر ‘ 22 صفرالمظفر 1436ھ15 دسمبر 2014ئ
ملک کیلئے نواز شریف پیدل چل کر عمران خان کے پاس جانے کو تیار ہیں : خواجہ آصف!
اب معلوم نہیں میاں صاحب کو اس کارخیر سے روکا کس نے ہے۔ عوام کے مطابق بیان باز وزراءجن میں خواجہ جی بھی شامل تھے‘ خود ہی انہیں روکے ہوئے ہیں ورنہ اگر وہ پیدل ایوان وزیراعظم سے نکلتے تو کب کے بنی گالا میں عمران خان کے فارم تک پہنچ چکے ہوتے اور عمران بھی تو ....
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آﺅ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
کا ورد کر رہے ہوتے۔ ملک اور قوم کیلئے ان دونوں ضدباز سجنوں کی ملاقات کی ضرورت تو روز اول سے ہی محسوس کی جاتی تھی مگر پاور گیم میں اپنی اپنی طاقت شو کروانے کا شوق دونوں بہت رکھتے ہیں۔ اس لئے پہلے ہتھ جوڑی اور بعد میں مصافحہ کی عادت نے انہیں ابھی تک دور دور رکھا ہے ورنہ ان دونوں کے درمیان ”اک ملاقات ضروری ہے صنم“ اب دیکھنا ہے خواجہ آصف کے اس نرم بیان کے بعد دونوں طرف سے گرمی گفتار کم ہوئی یا نہیں۔ امید ہے کہ عمران خان بھی میاں صاحب کے پیدل گھر آنے پر روایتی پشتون مہمان نوازی کا ثبوت دیں گے اور انہیں خالی ہاتھ جانے نہیںدیں گے۔ہماری دعا ہے کہ میاں صاحب جلد از جلد عمران خان سے ملاقات کیلئے پیدل نہ سہی‘ گاڑی پر ہی سہی ضرور نکلیں، ملک و قوم کیلئے نکلیں تاکہ ملک میں پھیلی سیاسی بے چینی کے خاتمہ کی کوئی پُرامن راہ نکلے ورنہ اس وقت تو ہر جگہ ملک و قوم کی ترقی کے دشمن نکلے ہوئے نظر آتے ہیں جنہوں نے عوام کا سکھ چین بھی چھین لیا ہے۔
٭....٭....٭....٭
بھارت میں پاکستانی پارلیمانی وفد کی تذلیل، پروٹوکول نہیں ملا، سپیکر نے وقت دینے کے باوجود ملاقات نہیں کی!
لو اب اتنی سی بات پر ناراضگی کیسی، محبوب کی گلی میں تو عزت سادات ہمیشہ سے خوار ہوتی رہی ہے عاشق تو ان باتوں کو اتنی اہمیت دیتے ہی نہیں وہ تو گالیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ چچا غالب نے اسی لئے تو کہا تھا ....
کتنے شیریں ہیں ترے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
جب ہم اپنی انا اور خو چھوڑ کر بات بات پر بھارت کو منانے اور رجانے کی کوشش کرتے پھریں گے تو وہ ایسے ہی اینٹھے گا جیسے ماش کا آٹا، یہ اس کی پرانی عادت ہے اسے ہم بنیا ذہنیت بھی کہہ سکتے ہیں، جب طاقتور سامنے آئے تو گھگیاتے جی مہاراج جی مہاراج کہتے ہوئے زبان نہیں تھکتی، ہاتھ جوڑے ہوئے نظر آتے ہیں مگر جب کوئی کمزور سامنے ہو تو سر کی چُٹیا کو بھی سنیگ بنا لیتے ہیں اور زبان سے شعلے برساتے ہوئے غرانے لگتے ہیں۔ اب کتنی بُری بات ہے کہ گھر آئے مہمان کی بے عزتی کی جائے، کہنے کو تو گھر آیا مہمان بھگوان ہوتا ہے مگر عملی طور پر یہ اسکے ساتھ دشمنِ جان جیسا سلوک کرنا کونسی سی کتاب میں لکھا ہے کم از کم پڑوسی ہونے کے ناطے ہی پاکستانی پارلیمانی وفد کی کچھ ٹہل سیوا کی جاتی، یہ بے چارے کون سے سادھو سنت ہیں کچھ ناچ گانا، اچھا کھانا پینا مل جاتا تو ان کی بھی سفر کی ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی اور تازہ دم ہو کر یہ بھی بھارت کی مہمانداری کے قائل ہو جاتے اور امن کی آشا والوں کی طرح جو بھارت کی اسی مہمانداری کے صدقے واری ہوئے جاتے ہیں اور وطن واپس آ کر بھارتی حُسن سلوک کے چرچے کرتے۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا اور یہ پارلیمانی وفد وہاں جا کر صرف تذلیل کے احساس سے دوچار ہوا۔ بھارتی پارلیمنٹ کی سپیکر وقت طے ہونے کے باوجود ان سے نہیں ملی، ان کے بقول وفد مقررہ وقت پر ملاقات کے لئے آیا ہی نہیں۔ بھلا یہ کوئی بہانہ ہے۔ ہو سکتا ہے وفد دیگر مصروفیات کی وجہ سے لیٹ ہو گیا ہو۔ اور تو اور لوک سبھا کے سکیورٹی والوں یعنی دربانوں نے بھی انہیں مہمانوں کی گیلری میں ہی بٹھا دیا، مخصوص نشستوں پر بیٹھنے ہی نہیں دیا۔ یہ حرکت تو قابل معافی نہیں ہو سکتی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارا پارلیمانی وفد اپنی پارلیمانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے مہمانوں کی گیلری میں بھی ہنگامہ برپا کر دیتا، وہ شور مچاتا کہ لوک سبھا کے کئی ممبر پرلوک سدھار جاتے، آخر اتنا کچھ تو سیکھا ہی ہے ہمارے ممبران پارلیمنٹ نے تو اس ہُنر کا وہاں مظاہرہ کیوں نہیں کیا۔ سارا تجربہ ضائع کر دیا اور ایک اچھا موقع بھی گنوا دیا بھارتی چہرہ بے نقاب کرنے کا۔
٭....٭....٭....٭
ماہ رواں میں مہنگائی کی شرح میں صفر اعشاریہ 4 فیصد کمی ہوئی : بیورو شماریات!
اب خدا جانے بیورو شماریات والے یہ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا اور معلومات کہاں سے حاصل کرتے ہیں، وہ ذرا گلیوں اور بازاروں میں جا کر قیمتیں معلوم کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کے تمام اعداد و شمار صفر اعشاریہ صفر کی حد تک درست ہیں۔
جن اشیاءکی قیمتوں میں وہ کمی کا اظہار کر رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان کے جاری کردہ نرخوں کے مطابق ہنوز بازاروں میں دستیاب نہیں البتہ شاید ان حضرات کو گھر بیٹھے بٹھائے مل جاتی ہوں۔ یہ بند کمروں میں بیٹھ کر اعداد و شمار اور نرخ جاری کرنے والی پالیسی اب بیکار ہو چکی ہے۔ رمضان المبارک کی برکتوں کے ساتھ آسمان کو چھونے والی مہنگائی اب تک پرواز سے تھک کر نہیں گری، پٹرول کی قیمتوں میں کمی ہو یا بجلی کے نرخوں میں کمی، کوئی بھی تیر جگر دوز اس مہنگائی کے سینے کو چھلنی نہیں کر سکا۔ غریبوں کے چولہے آج بھی ٹھنڈے ہیں اور ان کے دستر خوان پھلوں کی تو بات چھوڑیں سبزیوں کو بھی ترستے ہیں اس کے باوجود اگر کوئی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ مہنگائی میں کمی ہوئی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے پاکستان میں نہیں۔ گوشت، مرغی اور مچھلی صرف امراءکے لئے مخصوص ہے، سبزیاں اور دالیں سفید پوش طبقے کے ہاتھوں سے بھی دور ہوتی جا رہی ہیں۔ رہے غریب غربا تو وہ اب روکھی سوکھی کھا کر اپنی قسمت اور حکمرانوں کی جان کو روتے ہیں۔
شماریات بیورو والوں کو چاہئے کہ وہ کسی دن بازاروں اور گلیوں میں قائم دکانوں پر جا کر ریٹ چیک کریں پھر ہندسوں کا جال بچھا کر دیکھیں کہ دکاندار کس طرح حکومت کی آنکھوں میں دُھول جھونکتے ہوئے عوام کی کھال اتارتے ہیں اور مہنگائی کی چُھری سے انہیں ذبح کرتے ہیں۔ جب تک حکومت چھوٹے دکانداروں سے کر بڑے دکانداروں تک کو قانون کے شکنجے میں نہیں لاتی، چیک اینڈ بیلنس کے تحت لگام نہیں دیتی، مہنگائی کا جن اسی طرح بے قابو رہے گا۔