اتوار‘21 ؍ ربیع الاوّل 1439ھ‘10 ؍ دسمبر2017ء
ٹرمپ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا نہیں۔ آئندہ سال طبی معائنہ کرائیں گے: وائٹ ہاؤس
وائٹ ہاؤس والے بھی عجیب و غریب درفنطنیاں چھوڑنے کے ماہر ہیں۔ یہ خبر یا بیان ہی دیکھ لیں۔ اگر ٹرمپ صاحب کسی ذہنی بیماری میں مبتلا نہیں تو آئندہ برس انہیں معائنہ کرانے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ صاف لگتا ہے دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے۔ دنیا بھر میں ٹرمپ صاحب کی ذہنی بیماری کے حوالے سے طرح طرح کی چہ میگوئیاں گردش کرتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر لگتا ہے انہیں مسلمانوں سے ذہنی طور پر کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ ان کے ہر کام کی تان بالآخر مسلمانوں کیخلاف کسی نہ کسی اقدام پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے۔ اب بیت المقدس کو ہی دیکھ لیں اس مسئلہ پر انہوں نے کس طرح وہ فیصلہ کر لیا جو عرصہ دراز سے امریکی صدر دلی خواہش رکھنے کے باوجود نہیں کر پارہے تھے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے وہاں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان بتا رہا ہے کہ جناب ٹرمپ کی ذہنی حالت میں کچھ خلل ہے۔ امریکی حکمرانوں کو اسرائیل سے بے تحاشہ محبت رہی ہے۔ مگر ٹرمپ صاحب کو تو لگتا ہے اسرائیل سے عشق ہے۔ جب عشق ہو جائے تو پھر بقول حضرت غالب ’’کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغکا ‘‘ ٹرمپ صاحب بھی اسرائیل کے عشق میں دماغی خلل کا شکار ہیں۔ اب عالم اسلام کی تمام تر احتجاجی تحریک کے باوجود ٹرمپ اور اسرائیل ایک دوسرے کی بانہوں میں باہیں ڈالے جھوم رہے ہیں۔ انہیں نہ تو کسی کا ڈر ہے نہ خوف۔ اب خاص طور پر مسلم ممالک کو چاہئے کہ انکے طبی معائنے میں دماغی معائنہ پر خصوصی توجہ دینے کا مطالبہ کریں جس کی زیادہ ضرورت ہے۔
٭…٭…٭…٭
بنوں میں ایک ماہ کیلئے موٹرسائیکل چلانے پر پابندی۔
یہ تو وہی بات ہے مو بندہ گرتا کھوتی سے ہے اور غصہ کمہار پر نکالنا ہے۔ اب بھلا موٹرسائیکل سواروں پر ہی سارا نزلہ کیوں گرے۔ دہشتگرد اب گاڑیاں بھی استعمال کرتے ہیں کیا ان پر بھی احتیاطی تدابیر کے نام پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ موٹرسائیکل اور کاروں کی تو بات چھوڑیں اب تو ہمارے دشمن جاں بنے یہ دہشت گرد سائیکل جیسی معصوم اور بے ضرر سواری کو بھی اپنے مکروہ مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ ملک کے مختلف شہروں میں خواہ جدید ہوں یا قدیم بڑے ہوں یا چھوٹے اس بے ضرر سواری کو بھی دھماکوں کیلئے استعمال کیا گیا۔ تو اب کیا اس بے چاری سائیکل پر بھی پابندی عائد ہو گی۔ پہلے خدارا ان سوراخوں کو تو بند کریں جہاں سے چوہے ہمارے شہروں میں داخل ہوتے ہیں اور ان جگہوں پر ٹکٹکیاں لگائیں جہاں سے انہیں خوراک رہائش اور سامان ملتا ہے۔ تب جا کر ان چوہوں کی آمدورفت کم ہو سکتی ہے۔ ورنہ یہ اسی طرح ادھم مچاتے رہیں گے اور ہم غریب عوام پر کبھی سائیکل اور کبھی موٹرسائیکل کی سواری بند کرنے کے نادرشاہی احکامات جاری ہوتے رہیں گے۔ اب بنوں میں اس پابندی پر عملدرآمد سے سارا نقصان بے چارے غریبوں کا ہی ہو گا تاہم اس فیصلے کا ایک اچھا اثر یہ ضرور ہو گا کہ لوگ جو پیدل چلنا چھوڑ چکے ہیں اب ایک بار پھر لائن پر آ جائینگے اور قریب آنے جانے کیلئے پیدل چلنے کو ترجیح دینگے۔ یوں انکی بہت سی بیماریاں خود بخود ختم ہوں گی اور وہ چاق چوبند رہیں گے۔
٭…٭…٭…٭
مردم شماری نتائج ٹھیک ہوئے تو وزیراعلیٰ متحدہ کا ہو گا: فاروق ستار
لگتا ہے حیدر آباد کا جلسہ دیکھ کر فاروق ستار پھر ترنگ میں آ گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں اس جلسے پر ایم کیو ایم لندن والے کا بھوت چھایا نظر آ رہا تھا۔ ماسوائے اس کے کہ فاروق ستار نے حیدر آباد والوں کی رعایت میں کہہ دیا کہ ہم علیحدہ صوبہ نہیں مانگتے۔ مگر اسکے ساتھ ہی انہوں نے آئندہ سندھ کا وزیراعلیٰ متحدہ کا ہو گا کا اعلان کر کے ایک مرتبہ پھر تالاب میں پتھر پھینک دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر مردم شماری کے نتائج ٹھیک مرتب ہوئے تو ایسا بہت جلد ہو گا۔ پھر اسکے بعد فاروق ستار جو بہکے تو بہکتے چلے گئے۔ کہاں چڑھے اور کہاں اترے۔ فرمانے لگے کہ 2023ء میں وزیراعظم بھی متحدہ کا ہو گا ایسا تو لندن والے بھوت نے بھی کبھی خواب و خیال میں نہیں سوچا تھا جیسے خواب فاروق ستار کے من میں سمایا نظر آتا ہے۔ حالانکہ ابھی راہ عشق میں امتحاں اور بھی ہیں۔ پی ایس پی کو چھوڑیں وہ تو آپ کی جان روزانہ ایک ایم این اے یا ایم پی کا نوالہ بنا کر کھا رہی ہے۔ تحریک انصاف والے بھی کراچی میں قدم جمانے کیلئے کوشاں ہیں۔ پیپلز پارٹی تو موجود ہی ہے۔ ویسے اگر غیر قانونی تارکین وطن کو کراچی سے افغان مہاجرین کی طرح نکالنے کا عمل شروع ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔ جناب عالی! 1971ء کے بعد جو بھی غیر قانونی طور پر کراچی اور حیدر آباد آ کر آباد ہوا ہے وہ یہاں کا مقامی کب ہو گیا۔ بہرحال یہ الگ بحث ہے۔ مردم شماری میں ایسے لوگوں کی چھان بین ہونی چاہئے پھر ووٹروں کے اندراج کے وقت بھی چھان پھٹک کی گئی تو کہیں ایم کیو ایم والے اس پر رونا نہ شروع کر دیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ کراچی میں حیدر آباد میں دیگر شہروں میں غیر قانونی طور پر آنے والوں کی بستیاں کہاں کہاں قائم ہیں۔ خواہ افغان مہاجرین ہیں یا کوئی اور۔
٭…٭…٭…٭
ملک میں عمران‘ قادری‘ زرداری اتحاد موضوع بحث بن گیا۔
چلیں اور کچھ نہ سہی ملک کے ویلے عوام کو ایک نیا موضوع بحث مل گیا۔ ورنہ اکثر لوگ اسلام آباد دھرنے ختم ہونے کے بعد پریشان تھے کہ اب گلشن کا کاروبار کیسے چلے گا۔ وہ ویلے رہ کر کیا کرینگے۔ سیاسی میدان میں ہلہ گلہ ہو تو ہمارے ویلے عوام کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آ جاتا ہے۔ گلیوں بازاروں چوکوں چوراہوں میں تھڑوں اور دکانوں میں جہاں دو آدمی جمع ہوتے ہیں دھواں دھار بحث چھڑ جاتی ہے۔ مگر اب کی بار جو یہ سہ رنگی اتحاد سامنے آ رہا ہے وہ خاصہ تعجب خیز ہے۔ خان صاحب صاف ستھری سیاست کے قائل ہیں۔ زرداری صاحب کی سیاست پر خان صاحب کے تبصرے ہی کافی ہیں۔ رہے قادری صاحب تو انکی سیاست میں بہت کچھ حلال ہے۔ اب یہ پاکستانی عوام اور ووٹروں کی آزمائش ہے کہ وہ اب کیا کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دیرینہ قاری میجر (ر) فاروق نذیر کے مطابق عرصہ 10 سال قبل لٹیروں کا ایک گروہ سابق آرمی افسران کو لوٹنے کیلئے فراڈی سکیم بنا کر انہیں بلاتا اور انکی تصاویر بنا کر انہیں بلیک میل کرتا۔ وہ خود بڑی مشکل سے ان لٹیروں کے ہاتھوں بچ نکلے۔ اب پھر اسلام آباد میں ریٹائر اعلیٰ فوجی افسران انجینئرز اور ڈاکٹروں کو اعلیٰ تنخواہوں کا لالچ دیکر کوئی گروپ درخواستیں طلب کر رہا ہے۔ فاروق صاحب کا ڈر ہے کہ اب کتنے لوگ لٹیں گے اس لئے محتاط رہیں۔ مگر یہ جو ہمارے ہر قسم کے رنگ برنگے سیاستدان دن رات ایک دوسرے کی برائیاں گنواتے ہیں‘ جب ایک ہی صف میں محمود و ایاز بنے نظر آتے ہیں تو عوام کو ان پر بھی یہی گمان ہوتا ہے کہ کہیں یہ بھی سبز باغ دکھا کر انہیں کو پھر لوٹ کر نہ کھا جائیں۔