ہراسمنٹ ایکٹ 2010ءبھی خواتین اور طالبات کو اعصاب شکن ماحول سے نجات نہ دلا سکا
لاہور(رفیعہ ناہیداکرام)معاشی جدوجہد،حصول تعلیم یاملکی ترقی وخوشحالی میںکردارکاعزم لے کر میدان عمل میں اترنے والی ملک بھرکی کروڑوںخواتین اورطالبات کام کی جگہوں، راستوںاوربس سٹاپوںپرصنف مخالف کی طرف سے ہراساںکئے جانے کے باعث شدید ذہنی اذیت کاشکار ہیں۔خواتین وانسانی حقوق کی تنظیموںکی طویل جدجہد کے بعد وجودمیں آنے والاہراسمنٹ ایکٹ 2010بھی خواتین اور طالبات کواعصاب شکن ماحول سے نجات نہ دلاسکا، قانون کے تحت قومی وصوبائی سطح پرخواتین محتسب دفاتر قائم ہوئے،مختلف محکموںاوراداروںمیں ہراسیت کاشکار خواتین کی دادرسی کیلئے کمیٹیاںقائم ہوئیںمگر حالات جوں کے توںہیں۔دوسری جانب خواتین کی بڑی تعداد قانون اور اس کی افادیت سے لاعلم ہے۔نوائے وقت سے گفتگومیں مختلف فیکٹریوںاورمخلوط اداروںمیں کام کرنے والی نمرہ احسان، صوفیہ کامران اور شاہدہ اسلم نے بتایاکہ آج کے دورمیں جب تک سبھی گھروالے نہ کمائیں گزارانہیں ہوتا، لیکن گھرسے باہرکی دنیاکوخواتین کیلئے موزوںنہیں بنایاجاتا، دوسری جانب ورک پلیس پرمرد کولیگزکی طرف سے ہونے والی ہراسیت کے باعث لڑکیاںڈہنی اذیت کاشکاررہتی ہیں جس سے انکی کارکردگی بھی متاثرہوتی ہے۔ مختلف کالجوںکی طالبات اسماءعادل، شیریں محبوب نے کہاکہ لڑکیاںبرسہابرس سے تمام سطحوںکے امتحانی نتائج میں قابل فخرپوزیشنیں حاصل کرکے چھپی رستم ہونے کاثبوت دے رہی ہیںمگر جب وہ کام کی جگہوںپرپہنچتی ہیں توانہیںسنجیدہ نہیں لیاجاتا خواتین کے تحفظ کیلئے فول پروف انتظامات کئے جائیں۔صوبائی محتسب ڈاکٹرمیرافیلبوس نے کہاکہ ہراسمنٹ ایکٹ 20برس قبل ہی بن جاناچاہئے تھا، خواتین ہراسمنٹ کے واقعات کوبرداشت کرنے کی بجائے انکوائری کمیٹیوںتک پہنچائیں اس کی کوئی فیس یاخرچہ نہیںہے، فیصلہ بھی تین ماہ میں ہوجاتاہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین براہ راست محتسب کے دفتر میں بھی اطلاع کرسکتی ہیںہم اسے صیغہ راز میںرکھ کرکارروائی کریںگے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے معاشرے کوتشکیل ر نہ ہو۔