خلیفہ دوم
مولانا مفتی عمر فاروق
نبی کریم نے فرمایا:سیدنا حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت سیدنا حضرت عمر فاروقؓ میری آنکھ اور کان ہیں۔ ایک اور موقع پرآپ کا فرمان عالیشان ہے ابوبکر اور سیدنا حضرت عمر فاروقؓ زمین پر میرے وزیر ہیں۔احادیث کی کتب میں آقائے دوجہان نے آپ کے انفرادی و اجتماعی اور بھی بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں ،جن میں سے ہر فضیلت ایک منفرد مقام اور درجہ رکھتی ہے۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی ایک اور فضیلت ،جوآپ کو دیگر صحابہ کرامؓ سے منفرد مقام عطا کرتی ہے ،وہ آپ کی رائے پر قرآن مجید کا نازل ہونا ہے۔محدث دہلوی حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اس حوالے سے ایسے27 مقامات نقل فرمائے ہیں ۔
غزوئہ بد ر کے موقع پر جب 70کفار جہنم رسید اور70گرفتار ہوئے تو نبی کریم نے اپنے صحابہ ؓ سے گرفتار شدہ کفار ومشرکین کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو صحابہ کرام ؓ نے مختلف رائے کا اظہار کیا۔سید ناحضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے ،حضرت سیدنا فاروق اعظم ؓ نے اس سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ ان سب کو قتل کیا جائے اور ہر شخص اپنے رشتے دار کو قتل کرے۔ نبی کریم نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیے کی صورت میں قیدیوں کو رہا فرما دیا۔ بعد میں قرآن مجید نے اس فیصلے کے بارے میں اپنا حکم سناتے ہوئے کہا: نبیءکریمنے اپنی شان رحمت سے نرمی والا معاملہ کیا ،لیکن سیدناحضرت عمرؓکی رائے ہمارے موافق ہے کہ قیدیوں کو بھی میدان میں جہنم رسید ہونےوالوں کی طرح قتل کردیا جاتا۔
صحن حرم میں ایک مقام وہ بھی ہے، جہاں سید نا حضرت ابراہیم ؑ کے قدموں کے نشان ثبت ہیں۔ سیدناحضرت عمر ؓ نے ایک بار نبی کریمؓ سے عرض کیا کہ اس مقام پر دو رکعت نماز نفل ادا کرنے کاجی کرتا ہے۔ نبی کریم وحی الٰہی کے آنے تک خاموش رہے اور پھر جب وحی آئی توسیدنا حضرت عمر ؓ کی خواہش کے مطابق مقام ابراہیمؑ پردو رکعت نماز نفل ادا کئے گئے۔ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ اتنی پاکیزہ تھیں کہ آپ کی برا¿ت کا اعلان خو د اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا۔آپ نے اپنے صحابہ کرام ؓ سے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سید ہ عائشہ صدیقہ ؓکے بارے میں رائے لی تو سب نے متفقہ طور پر ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓکو پاکیزہ قرار دیا۔ سیدناحضرت عمر ؓ سے جب رائے لی گئی تو آپ نے تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد فرمایا: ”یہ محض ایک بہتان ہے ،اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں“۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جب قرآن مجید میںام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓکی برا¿ت اور صداقت کا اعلان فرمایا تو عرش عظیم سے وہی الفاظ نازل فرمائے گئے، جو فرش پر سیدناحضرت عمرؓ نے کہے تھے۔اس سے جہاں ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓکی عظمت کا پتہ چلتا ہے، وہیں حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کے مقام و مرتبے کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یار غار ومزار خلیفہ اول امیر مومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے وصال کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ بنے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں کارنامے ہائے نمایاں سرانجام دئیے کہ تاریخ بھی عمر فاروق ؓ کو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوگئی۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم ؓ 22لاکھ 55ہزار مربع میل پر شاندار انداز میں حکومت کی اور رعایا کو ان کے مکمل بنیادی حقوق فراہم کئے۔ حتیٰ کہ آپ کی سلطنت میں بسنے والی اقلیتیں بھی اپنی عبادت گاہوں میں خلیفہ دوئم حضرت سیدنا فاروق اعظم ؓ کے لئے دعا گو رہیں۔ حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ نے اپنے دور خلافت میں عدل وانصاف کا ایسا معیار قائم کیا کہ ایک غیر مسلم اسکالر بھی یہ بات لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر سیدنا حضرت عمرؓدس سال اور زندہ رہتے تو آج یورپ میں بھی اسلام کا پرچم لہرا رہاہوتا۔حضرت سیدنا عمر فاروق کو جو زندگی ملی، وہ بھی فضیلتوں والی تھی اور رب کائنات نے جو موت عطا کی، وہ بھی بڑی عظمت والی شہادت کی موت نصیب ہوئی۔ ابولولوفیروز نامی ایک بدبخت شخص نے فجر کی نماز میں سیدنا حضرت عمرؓ پر حملہ کیا۔ جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے اور اسی حالت میں چار دن کے بعد یکم محرم الحرام کو جان،جان آفرین کے سپرد کردی۔ایمان لانے سے عہد خلافت تک اگرآپ کی اور کوئی فضیلت نہ بھی ہوتی تو یہ کافی تھا کہ آپ کو حضور اقدسکے قدموں میں بعداز انبیاءافضل البشر خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔