دانش سکولز غربت کا خاتمہ بذریعہ تعلیم کی پالیسی کے تحت قائم ہوئے ہیں
عنبرین فاطمہ
”دانش سکولز “وزیر اعلیٰ پنجاب کے ”وژن“ کی ایک اعلیٰ مثال ہیں، اس پراجیکٹ کا مقصد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے باصلاحیت بچوں کو نہ صرف روشن مستقبل دینا ہے بلکہ ان کی شخصیت سازی کرکے انہیں تعلیم کے شعور کی ا’س سطح پر لیکر جانا ہے جہاں انہیں احساس ہو تعلیم کے بغیر ایک بہترین زندگی کا خواب ممکن نہیں ہے ۔اِس وقت ساﺅتھ پنجاب میں چودہ دانش سکولز ہیں جن میں نوہزار سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں ان پر ہونے والا ماہانہ خرچ پنجاب گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے ۔یہاں سیلف فنانس پر داخلہ لینے والے بچوں کا کوٹہ دس فیصد ہے ۔دانش سکولز کا پہلا بیج کامیابی سے فارغ ہو کر جا چکا ہے اور اس وقت لمز ،فاسٹ اور کام سیٹ جیسے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہے۔ہم ”سنٹر آف ایکسیلینس“ بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار” دانش سکولز کے مینجنگ ڈائریکٹر“ بریگیڈئیر (ر) ”عامر حفیظ “نے ”نوائے وقت “کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔ عامر حفیظ نے ایک برس قبل دانش سکول سسٹم کا بطورایم ڈی چارج سنبھالا،1985میں فوج کا حصہ بنے 31برس تک فوج میں خدمات انجام دیں اس کے علاوہ عامر حفیظ سٹاف کالج ملٹری جہلم میں رہے ،آرمی برن ہال کالج میں دو سال تک پرنسپل رہے ،13برس تک ملٹری اکیڈمی میں مختلف رینکس میں رہے ان کی آخر ی پوسٹنگ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ڈائریکٹر آف سٹڈیزتھی ۔فوج کی طرف سے سعودی عرب میں ڈیپوٹیشن پر انگلش لینگوئج سنٹر بطور چیف انسٹرکٹر چلایا ۔ان سے ہونے والی گفتگو کچھ یوں ہے ۔
نوائے وقت : دانش سکولز کی مزید بہتری کےلئے آپ کیا وژن لیکر آئے ہیں ؟
بریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :کیچڑ میں کنول کے پھول کا کھلنا دانش سکول کے قیام کے پیچھے چھپے فلسفے کی عین عکاسی ہے ،برصغیر میں اپنی نوعیت کے سب سے بڑے اس پراجیکٹ کا حقیقی وژن توچیف منسٹر پنجاب میاں محمد شہباز شریف کا ہے ۔دانش سکولز وزیر اعلی کی ”غربت کا خاتمہ بذریعہ تعلم “ کی پالیسی کے تحت قائم ہوئے ہیں۔ان اقامتی اداروں میں غریب ،یتیم ،مسکین ،نادار بچوں کو بلا معاوضہ معیاری تعلیم کیساتھ ساتھ رہائش خوراک ،لباس اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کی جاتی ہیں۔اس پراجیکٹ کا مقصد نہ صرف نادار بچوں کو تعلیم دینا ہے بلکہ ان کو وہ اعتماد دینا ہے جو بنیادی طور پر زندگی کے ابتدائی مراحل میں درکار ہوتا ہے ۔رہائشی ان سکولوں میں خالی پڑھائی پر زور نہیں دیا جاتابلکہ ان کی تربیت اور شخصیت سازی بنیادی مقاصد میں شامل ہے میری کوشش ہے کہ میںاس پراجیکٹ کی اصل روح کے مطابق کام کروں ۔
نوائے وقت :ا ن سکولوں میں داخلے کےلئے کیا میرٹ رکھا گیا ہے؟
بریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :میرٹ یہی ہے کہ ایسے بچے جن کے والدین کی ماہانہ آمدن پندرہ ہزار ہو،وہ بچے جن کے والدین وفات پا چکے ہو ں ،یا والد فوت ہو چکا ہواور بچہ والدہ کیساتھ رہتا ہو،یا والدین میں سے ایک معذور ہو ،اسکے علاوہ ایسے والدین جو غیر تعلیم یافتہ ہوںان کی کوئی غیر منقولہ جائیداد اور مستقل ذریعہ آمدن نہ ہو ،بچہ گاﺅں یا شہر کا رہنے والا ہو اور اس کا مکان کچا ہو اور والدین محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ان سب چیزوں کے علاوہ داخلہ حاصل کرنے والے امیدوار بچے ٹیلنٹڈ بھی ہونے چاہیں ہم ان کا میرٹ پر اینٹری ٹیسٹ لیتے ہیں سلیکشن کے بعد ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے کنفرمیشن ملتی ہے کہ ہاں واقعتا یہ بچہ سطح غربت سے نیچے ہے پھر کہیں جا کر کسی بچے کی سلیکشن یقینی بنتی ہے ۔تعلیم حاصل کرنے بعد ایسے بچے اپنے گھر والوں کی ہر معاملے میں سوچ کو تبدیل کرنے کے ساتھ ان کے معاشی حالات بھی تبدیل کر دیتے ہیں ۔
نوائے وقت : سیلف فنانس کا کوٹہ کتنا ہے اور سیلف فنانس اور غریب گھروں سے آئے بچوں کو ایک طرح سے ڈِیل کیا جاتا ہے؟
ؓبریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :سیلف فنانس کا دس فیصد کوٹہ ہے ان بچوں سے بارہ ہزار روپے ماہانہ لیا جاتا ہے اوریہاں غریب بچے اورسیلف فنانس والے دونوں کو ایک طرح سے ہی رکھا جاتا ہے ان کی یکساں تعلیم و تربیت کی جاتی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حسن ابدال میں پانچ سال ،ملٹری کالج میں پانچ سال ،بہت سارے رہائشی سکول پانچ سال تک جبکہ ہم چھٹی سے بارہویں جماعت تک بچوں کا ہاتھ تھامے رکھتے ہیں ۔جب بچہ بارہویں جماعت میںیہاں سے فارغ ہو کر جاتا ہے تو وہ پروفیشنل سٹیج میں داخل ہو چکا ہوتا ہے اسے سمجھ آچکی ہوتی ہے کہ اس نے مزید کیا کرنا اور کس طرح سے اپنی زندگی کو بدلنا ہے۔
نوائے وقت :دانش سکولز کے بچے پوزیشنیں بھی لیتے ہیں ؟
ؓبریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :بالکل ہمارے سکولوں کے بچے مختلف بورڈ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں اور پوزیشنیں بھی لیتے ہیں آپ اگر ہمارے پچھلے آٹھویں کے بورڈ کے نتائج دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے ، ہمارے سکولوں کا سٹرکچر کسی بھی طرح سے یورپ کے سکولوں سے کم نہیں ہے بلکہ یہ بھی کہوں گا کہ دانش سکولز حسن ابدال اور ملٹری کالجز سے کم نہیں ہیں ۔
نوائے وقت :گورنمنٹ سکولوںکی نسبت دانش سکولز کے اساتذہ کی تنخواہیں بہت زیادہ ہیں اس چیز کو لیکر بہت تنقید بھی کی جا تی ہے اس پر کیا کہیں گے ؟
ؓبریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :پہلی بات جو بتانا چاہتا ہوں کہ جن اساتذہ کو ہم نے دانش سکولوں میںرکھا ہے ان کی تعیناتی کا طریقہ کار نہایت سخت ہے ۔باقی گورنمنٹ سکولوں کے اساتذہ سے ان کی تنخواہیں تھوڑی ہی زیادہ ہیں ۔لیکن یہ بھی بات یہاں واضح کرتا چلوں کہ گورنمنٹ سکول ڈیز ہیں جبکہ دانش سکولوں میں اساتذہ کی چوبیس گھنٹوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے وہ چوبیس گھنٹے بچوں کی تربیت پر مامور ہیں ۔ہم نے اساتذہ کی ٹریننگ کے باقاعدہ پروگرامز رکھے ہوئے ہیں ،ہم نے ایسا کوئی پرنسپل نہیں رکھا جو حسن ابدال اور ایچیسن میں نہ رہا ہو۔
نوائے وقت :دانش سکولز پر جو اتنا پیسہ لگایا گیا یہی پیسہ اگر گورنمنٹ سکولوں پر لگایا جاتا تو زیادہ بہتر نہ ہوتا ؟
ؓبریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :آپ مجموعی طور پر دیکھیں تودانش سکولوں میں بچوں کو مفت پڑھایا جاتا ہے اس کا بجٹ بھی آپ کو بتا چکا ہوں گورنمنٹ سکولوں کا مقابلہ رہائشی سکولوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ دانش سکولوں میں تو بچے کی پوری شخصیت کو بدلنے پر کام ہوتا ہے اسکو سپورٹس اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی پر اعتماد بنایا جا تا ہے۔ہمارے پاس کچی مٹی سے آئے گھروں کے بچے آج لمز،فاسٹ اور کام سیٹ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو بتائیے کیا یہ دانش سکولوں کی کامیابی نہیں ؟۔
نوائے وقت : نصاب گورنمنٹ سکولوں سے کتنا مختلف ہے ؟
ؓبریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :مختلف تو نہیں ہے بلکہ لاہور بورڈ میںجو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہی ہم ان کو پڑھاتے ہیں ،چشتیاں ،بہاولپور کے بچے لاہور کے بچوں کے مقابلے پر امتحان دیکر پوزیشنز لے رہے ہیں ۔باقی ساتھ ساتھ ہم ان کی شخصیت سازی ،ان کی بول چال وغیرہ جیسی چیزوں پر پورا سال اپنی طرف سے تیار کردہ کتابیں پڑھاتے رہتے ہیں ۔
نوائے وقت :دانش سکول تو بنا لئے کیا اسی طرز کے کالج اور یونیورسٹیاں بنانے کا بھی پلان ہے ؟
ؓبریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :فی الحال تو انہی سکولوں کو بہتر سے بہترین بنانے پر ہی توجہ ہے باقی دیکھیں گے کہ مزید کیا کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان سکولوں کا سیٹ اپ کافی بڑا ہے جو کہ خاصا توجہ طلب ہے ۔
نوائے وقت :دانش سکولز کا بجٹ کیا ہے ؟
ؓبریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :پنجاب گورنمنٹ کے تعلیمی بجٹ سے ایک فیصد سے کم ہے۔ہم بچوں کے تمام اخراجات ،ان کی فیس ،کپڑے ،سپورٹس کٹ ،کھانا ہر چیز فری مہیا کرتے ہیں ۔ایک بچے پر حکومت پنجاب اٹھارہ ہزار خرچ کرتی ہے اور اس وقت بچوں کی تعداد 9ہزار 300 ہے ۔یہ بچے جب آتے ہیں کچھ اور ہوتے ہیں لیکن ایک سال کے بعد باقاعدہ انگلش میں بات کر رہے ہوتے ہیں ۔
نوائے وقت :سنٹر آف ایکسی لینس کو لیکر دانش سکولز کی کیا کارکردگی رہی ہے ؟
ؓبریگیڈئیر (ر) عامر حفیظ :گورنمنٹ کے کچھ سکولوں کو دانش کے حوالے کیا گیا ہم ان سکولوں کی ضروریات کے مطابق ان کو مختلف قسم کی سہولیات دیتے ہیں پلے گراﺅنڈز ،لیبارٹریز سمیت جس جس چیز کی ضرورت ہے اس کو مہیا کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے،ہم تو ان سکولوں میں باقاعدہ ایڈمنسٹریٹیو تبدیلیاں لاتے ہیں۔2015میں ہمیں دس سکول ملے ان کے 2016کے نتائج دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ہماری کاوشوں کی وجہ سے ان نتائج میں کتنی بہتری آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
دانش سکولزکی تعداد
رحیم یار خان : دو :بوائر اینڈ گرلز۔ چشتیاں :دو :بوائر اینڈ گرلز۔راجن پور: دو :بوائر اینڈ گرلز۔اٹک : دو :بوائر اینڈ گرلز۔حاصل پور: دو :بوائر اینڈ گرلز۔میانوالی : دو :بوائر اینڈ گرلز۔ڈی جی خان : دو :بوائر اینڈ گرلز
۔۔۔۔۔۔
final