حضرت معاذبن جبلؓ فرماتے ہیں: ایک دن صبح کی نماز کا وقت تھا حضور اکرمﷺ اپنے معمول مبارک کیمطابق تشریف نہ لائے قریب تھا کہ سورج طلوع ہو جائے اتنے میں حضور تیزی سے تشریف لے آئے۔ تکبیر ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ سلام کے بعد ارشاد فرمایا اپنی صفوں میں بیٹھے رہو۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ میں تمہیں تاخیر سے آنیکی وجہ بتاتا ہوں۔ میں آج رات ذکرِ الہٰی میں کھڑا ہوا حسبِ مقدور نماز پڑھی، مجھے نماز ہی میں نیند نے آلیا یہاں تک کہ مجھے کیفیتِ نزولِ وحی محسوس ہوئی پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرا ربِ (کریم) بڑی ہی پیاری صورت کیساتھ جلوہ افروز ہے۔ اور (میرے رب نے) فرمایا: یامحمد! میں نے عر ض کی لبیک یا ربی اے میر ے رب میں حاضر ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پوچھا یہ مَلاء اعلی کے فرشتے کس بات میں جھگڑ رہے ہیں۔ میں عرض کی (میرا) اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کاندھوں کے درمیان رکھ دیا اسکی ٹھنڈک، میں نے سینے کے درمیان تک محسوس کی۔ اسکی برکت سے میرے لئے ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے اس کو پہچان لیا۔ پھر اللہ رب العز ت نے پوچھا: یامحمد! میں نے عر ض کی: اللَّھم لبیک پوچھا، آسمان کے فرشتے کس بات پر جھگڑ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی درجات اور کفارات (کے باب) میں، اللہ تعالیٰ نے پوچھا: درجات (بلندیوں تک لے جانے والی چیزیں) کیا ہیں میں نے عر ض کی، ’’کھانا کھلانا (سخاوت و مہمان نوازی کرنا) سلام پھیلانا (ہر ایک مسلمان کو السلام علیکم کہنا) اور رات کی تنہائیوں میں جب دوسرے لوگ گہری نیند میں ہوں اٹھ کر نماز پڑھنا‘‘۔ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (اے میر ے حبیب تو نے) سچ کہا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے استفسار فرمایا اب بتائو کفارات (گناہ مٹانیوالی، غلطیوں کا زالہ کرنیوالی) کیا ہیں؟ میں نے عرض کی ’’تکلیف کی حالت میں بھی مکمل وضو کرنا، ایک نماز سے فارغ ہو کر دوسری نماز کا انتظار کرنا اور جماعت میں شریک ہونے کیلئے چل کر جانا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اے میر ے محبوب تو نے) سچ کہا، اب مانگو جو مانگنا چاہتے ہو، تو میں نے بارگاہِ رب العزت میں گزارش کی، ’’الہٰی میں تجھ سے نیک کام کرنیکی بُرے کاموں کو چھوڑنیکی اور مسکینوں سے محبت کرنیکی توفیق مانگتا ہوں اور میں التجاء کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور جب اپنے بندوں کو تو کسی فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے فتنہ سے بچا کر اپنی طرف بُلا لے اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں مجھے اپنی محبت عطا فرما اور جو تجھ سے محبت کرتا ہے اسکی محبت عطا فرما اور اس کام کی محبت عطا فرما جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے‘‘۔ حضور نے صحابہ کو فرمایا دعا کے یہ فقرے تم بھی سیکھ لو اور لوگوں کو بھی سکھائو کیونکہ یہ حق ہے۔ (امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے میں نے اسکے بارے میں امام بخاری سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے)۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024