سپریم کورٹ کے چابک مارنے تک ادارے نہیں چلتے: جسٹس دوست محمد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ایئرپورٹس پر اوورسیز پاکستانیوں کو سہولیات کی عدم فراہمی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے عدالتی حکم پر عمل درآمد سے متعلق پیش رفت رپورٹ طب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 12جنوری تک ملتوی کردی۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا دہشتگردی کیخلاف قوانین بہت ہیں مگر وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہیں ان کی اہمیت تب ہے جب ان پر عملدرآمد کیا جائے۔ ان قوانین پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو پشاور ایسے افسوناک واقعات کو روکا جاسکتا تھا چیئر مین سی اے اے نے عدالتی روسٹرم پر کھڑے ہوکر پروازوں کے دوران پاکستانی مسافروں سے فارم بھروانے کے بارے میں غلط بیانی کی ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ عدالت ہدایت دے دے کر تھک گئی ہے ایسے امور سرانجام دینے کے لئے ایک ایماندار اور حساس دل فرد کی ضرورت ہے، عدالت اور ایئرپورٹس پر کوئی افسانہ نگار جاکر مشاہدہ کرے تو درجنوں حقیقی ا فسانے لکھے جاسکتے ہیں، برسر اقتدار لوگ حاکم نہیں بلکہ عوام کے خادم ہیں، حضرت علیؓ کا قول ہے کوئی ریاستی نظام کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی پر نہیں، 16ارب زرمبادلہ بھیجنے والے تارکین وطن سے، وطن پہنچتے ہی ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے خواص کا کام وی آئی پی طریقے سے ہوجاتا ہے مگر عوام کو بھی تو کچھ سہولیات دینا ہوں گی، بسکٹ اور کیک کھاتے چائے پیتے سی اے اے ادارے کی پالیسی ایئر کنڈیشنڈ روم میں بیٹھ کر وہ بیورو کریٹس اور سیاست دان بناتے جن کا ان مسائل سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا تو بہتری کیسے آئے گی ؟ پاکستان کا نظام بہتر ہوتا تو نوجوان نسل کیوں بیرون ملک جانے کے چکر میں قانونی اور غیر قانونی راستے اختیار کرکے ملک چھوڑ کر جاتی، نئے ائیر پورٹ کی تکمیل بادی النظر میں دس سال میں بھی ممکن نہیں۔ قائم مقام چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد اور جسٹس فائزعیسٰی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ سول ایوی ایشن کے وکیل عبید الرحمن عباسی نے کہا کہ سہولیات کی فراہمی کا نظام بہتر ہوا ہے۔ مزید بہتری لے لئے عدالت کچھ مہلت دے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہونا چاہئے اور عملدرآمد نہ کرنے پر متعلقہ لوگوں کو سزا بھی دینی چاہیے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ قوانین تو انسداد دہیشگردی کی اتھارٹی کے پاس بھی بے شمار ہیں لیکن پرسوں پشاور میں کیا ہوا۔ اس حوالے سے قوانین میں دہشت گردوں کو دو دو پھانسیاں دینے کی سزائیں موجود ہیں مگر وہ سزائوں کے قوانین کاغذ کے ٹکڑوں کے علاوہ کچھ نہیں کاغذات بذات خود کچھ نہیں ہوتے ان پر عمل کرنے سے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ ان کے پاس گفتگو کا ریکارڈ ہے جوافغان حکومت کو بھی دیا گیا ہے عدالت نے ساڑھے تین سال قبل اسی حوالے سے فیصلہ دیاتھا افغان سرحدبندکی جائے اور اورغیرملکی افغان سمیں بھی بند کی جائیں جس پراب تک عمل نہیں ہوسکا۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد ہوتا تو پشاور سانحہ ایسے واقعات روک سکتے تھے،حکومت کا سار نظام اور ادارے اس وقت تک نہیں چلتے جب تک سپریم کورٹ انہیں چابک نہ مارے کیا سارا نظام عدالتوں نے چلانا ہے؟اس پر پھرعدالت پر حدود سے تجاوزکرنے کی قد غن لگ جائے گی۔ جسٹس جواد نے کہا عدالتی احکامات کے باوجود کوئی پیشرفت نظر نہیں آئی کسی کے کانون پرجوں تک نہیں رینگی بعدازاں عدالت نے سیکرٹری اور چیئرمین سول ایوی ایشن کونوٹس جاری کر دیئے۔