اوباما کوبھارتی مداخلت کے ثبوت دینے‘ سیز فائر کی خلاف ورزی کا معاملہ اٹھانے کا فیصلہ
اسلام آباد + نئی دہلی (سٹاف رپورٹر + نیشن رپورٹ+ آن لائن+نوائے وقت رپورٹ) پاکستان نے کہا ہے کہ وہ سول ایٹمی توانائی کے حصول کیلئے عالمی تعاون چاہتا ہے، سول نیوکلیئر تعاون سب کیلئے غیر امتیازی ہونا چاہیے، خطے میں قیام امن کیلئے وزیر اعظم نواز شریف کا چار نکاتی فارمولا ہی قابل عمل ہے، بھارت کو بھی جلد احساس ہو جائے گا کہ چار نکاتی فارمولاہی آگے بڑھنے کا واحدراستہ ہے، سانحہ منیٰ پر افسوس ہے، 89 پاکستانی حجاج شہید اور 5 زخمی ہیں جبکہ 43 تاحال لاپتہ ہیں۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کیلئے تیار ہیں، قندوز حملے میں ملوث نہیں، الزامات بے بنیاد ہیں، اپنی سرزمین کسی صورت افغانستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، شام میں خانہ جنگی پر پاکستان کو تشویش ہے، بھارت بڑا گوشت برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، گائے کو ذبح کئے بغیر اتنی بڑی برآمدات ممکن نہیں، گائے کو ذبح کرنے کے مسئلے پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا افسوس ناک ہے، انتہا پسند شیو سینا کی دھمکیوں کا بھارتی حکومت کو نوٹس لینا چاہیے، پاکستانی فنکاروں کو دھمکیاں ثقافتی تبادلے کیلئے نقصان دہ ہے، سمجھوتہ ایکسپریس سے پاکستانیوں مسافروں کو اتارنے کا معاملہ بھی دیکھ رہے ہیں۔ قاضی خلیل نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ وزیراعظم کا دورہ اقوام متحدہ انتہائی مفید رہا انہوں نے اقوام متحدہ میں عالمی برادری کے سامنے کشمیر کے مسئلے کو انتہائی مضبوط طریقے سے اجاگر کیا، خطے کے قیام امن کیلئے وزیراعظم نے 4 نکاتی فارمولا پیش کیا ہے جس کو عالمی برادری نے سراہا ہے، وزیراعظم نے عالمی برادری کوپاکستان میں بھارتی مداخلت کے بارے میں بھی آگاہ کیا اور مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کو فراہم کئے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ وزیر اعظم کے رواں ماہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کے دوران بھی بھارتی مداخلت کے ثبوت دیں گے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نیو کلیئر توانائی کے حصول کے لئے امریکہ اور عالمی برادری سے تعاون چاہتا ہے،سول نیو کلیئر تعاون سب کے لئے غیر امتیازی ہونا چاہیے تاہم اس تعاون کیلئے امتیاز نہ برتا جائے، واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کی تردید کرتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان شام میں کسی قسم کی جارحیت کو سپورٹ نہیں کرتا اور شام میں تمام گروہوں کی مفاہمت سے امن کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داعش کی کوئی چیز اسلامی نہیں، پاکستان اپنی سرزمین پر داعش کا وجود کسی صورت برداشت نہیں کرے گا، افغانستان کی جانب سے پاکستان مخالف بیان آنا افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا خواہاں ہے اور ہر شعبے میں تعاون کیلئے تیار ہیں۔ اے پی پی کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل نے کہا ہے کہ بھارت میں گائے ذبح کرنے پر مسلمانوں پر حملے پوری مسلم امہ کیلئے تشویش کا باعث ہے، بھارت جمہوری اور سیکولر ریاست ہونے کا دعویدار ہونے کے ناطے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر سمیت تمام دیرینہ حل طلب مسائل کا پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرات کے ذریعے حل چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں کہ پاکستانی ایجنسیاں یا فورسز ان حملوں میں ملوث ہیں۔ صباح نیوز کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ کا معاملہ امریکی حکام کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کے دوران کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دورے سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور زیر غور آئے۔ وزیراعظم نے امید کا اظہار کیا کہ دورے سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیاں نمایاں کرنے کا موقع ملے گا۔ دورے کے دوران بھارت کی جانب سے ورکنگ بانڈری اور لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی، پاکستان کا افغانستان امن عمل میں مصالحتی کردار، خطے کی سکیورٹی صورت حال اور خطے میں داعش کی موجودگی جیسے امور زیر غور آئیں گے۔ حکومت کا موقف ہے کہ امریکہ پاکستان کے دفاع، معیشت اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اہم پارٹنر ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ وزیراعظم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک شراکت کے روپ میں دیکھتے ہیں جس کا فائدہ دونوں ملکوں کو ہوگا۔2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کا یہ دوسرا دورہ امریکہ ہے۔توقع ہے کہ اس دورے میں افغانستان میں پائیدار امن کے لیے پاکستان کی کوششوں اور کردار پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ پاکستان نے رواں سال جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی بھی کی تھی جس میں امریکہ اور چین کے مبصر میں شریک ہوئے تھے۔ لیکن بعد ازاں یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور افغانستان میں ہونے والے پے درپے ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری افغان قیادت پاکستان میں موجود دہشت گرد گروپوں پر عائد کرنے لگی جس سے اسلام آباد اور کابل میں فروغ پاتے تعلقات ایک بار پھر تنا کا شکار ہو چکے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی کوششوں میں پاکستان ایک ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور خاص طور پر گزشتہ سال افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد خطے میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے کردار کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ وزیراعظم صدر بارک اوباما کی دعوت پر اس مہینے کے آخر میں امریکہ کا دورہ کریں گے۔ وزیراعظم کو اس دورے کی دعوت امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے اگست میں دی تھی۔ وزیراعظم دورے کے دوران صدر اوباما، ان کی کابینہ کے ارکان اور خارجہ پالیسی کے ماہرین سے ملاقات کریں گے۔علاوہ ازیں ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف 777 بوئنگ کی بجائے 12 سیٹوں والے چھوٹے جہاز پر امریکہ جائیں گے اکیس اکتوبر کو واشنگٹن پہنچیں گے اور 22 اکتوبر کو وائٹ ہائوس میں امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کریں گے۔ دی نیشن کے مطابق پاکستان مستقبل میں بھی اقوام متحدہ کو بھارتی مداخلت کے حوالے سے آگاہ کرتا رہے گا اور اس حوالے سے جو ضروری معلومات ہوں گی دے گا۔ دریں اثنا شفقت علی کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف دورہ امریکہ کے دوران اوباما کی حمایت حاصل کرنے کے حوالے سے پرامید ہیں وزارت خارجہ حکام کے مطابق وزیراعظم کو بھارت کے اس موقف کو مسترد کرنے کا موقع ملے گا جس میں اس کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو سپورٹ کر رہا ہے وزارت خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اوباما کے سامنے پاکستان کا موقف پیش کریں گے اور بھارت کی طرف سے مداخلت کے ثبوت دیں گے نوازشریف امریکی صدر کو دہشت گردی کی جنگ میں دی جانے والی قربانیوں سے بھی آگاہ کریں گے اور پاکستان اور بھارت میں نیوٹرل کردار ادا کرنے کاکہیں گے۔ دریں اثنا ترجمان بھارتی وزارت خارجہ کالو سوارب نے کہا ہے کہ پاکستان سے اوفا معاہدے کی شرائط پر بات چیت کے لئے تیار ہیں قومی سلامتی کے مشیر دہشت گردی سے متعلق امور پر بات کریں گے ڈی جی پی ایس ایف، پاک رینجرز، ڈی جی ایم اوز سرحدی امور پر گفتگو کریں گے سرحدوں پر فائرنگ، فشرمین، مذہبی زائرین کے معاملات پر بات ہو گی۔ بھارت نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی ممکنہ جوہری معاہدے سے پہلے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو سے متعلق پاکستان کے سابقہ ریکارڈ کو ضرور مدنظر رکھتے ہوئے اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرے۔