کتابیں ہیں چمن اپنا
کتاب ایک بہترین ساتھی ہے اور ساتھی بھی ایسا جو تنہائی کا احساس بھی نہیں ہونے دیتا جب سے جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہاں کتاب کسی پس منظر میں جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے باوجود یورپ اور بعض دیگر ممالک میں لوگ انتظارگاہوں اور ریل و جہاز میں کتاب پڑھتے دکھائی ضرور دیتے ہیں۔ کتابوں کے چمن سے خوشبو ملتی رہے تو فضا خوش گوار رہتی ہے۔ جب بھی کسی ادب دوست اور کتاب دوست کی طرف سے اس قسم کی خوشبو ملتی ہے تو زندگی میں تازگی کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے اگست کے مہینے میں جہاں لوگ مختلف انداز میں آزادی کا جشن مناتے دکھائی دیتے ہیں وہاں چاہ جائی والا کے مجید احمد نے اپنے قصبے میں ایک ادبی لائبریری کے قیام سے جشن آزادی منانے کا اہتمام کیا ہے بہاولپور روڈ پر بلی والا موضع سے متصل دور افتادہ چاہ جائی والا جا کر احساس ہوا کہ لہلہاتی فصلوں ‘ کھیت‘ نرسری علاقے اور دھول اڑاتی پگڈنڈیوں کے سنگم میں مجید احمد نے کتابوں کا چمن آباد کر دیا ہے۔ 18 اگست کو اپنے جیب خرچ سے رقم بچا کر ادبی لائبریری قائم کرنے والے مجید احمد نے ادب اور کتاب دوست سجاد جہانیہ ڈائریکٹر آرٹس کونسل ملتان اور چند دیگر دوستوں کو اس لائبریری کے افتتاح کے لئے مدعو کیا تھا اور راقم کو بھی اس حوالے سے خصوصی دعوت دی تھی ادب دوست بزم احباب کے روح رواں فیاض اعوان اور کتاب دوست قاری عبداﷲ بھی ہمارے ہمراہ تھے چاہ جائی والا کی ادبی لائبریری میں علاقے کے کئی افراد اور کرن کرن روشنی کی پوری ٹیم موجود تھی جہاں نہایت نفاست قرینے اور سلیقے سے کتابیں شیلف میں لگی ہوئی تھیں اس دور میں جب کتابیں شیلفوں اور کتابوں کی دکانوں سے بھی غائب ہوتی جا رہی ہیں مجید احمد جائی نے ایک دور افتادہ علاقے میں گویا جنگل میں منگل کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ مجید احمد جائی بچوں کے جانے پہچانے ادیب ہیں ان کی کہانیوں کا مجموعہ اخلاق کا انعام کے نام سے شائع ہو چکا ہے جبکہ قفس میں رقص کے نام سے افسانوں کا مجموعہ بھی پذیرائی حاصل کر چکا ہے انہوں نے اپنی ادبی لائبریری کی رکنیت سازی کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا ہے کہ 20 اگست ان کا جنم دن ہے اور اس روز کو انہوں نے ایک یادگار کام سے منسوب کر دیا ہے۔ اس لائبریری کی ایک خاص بات یہ بھی ہو گی کہ یہاں ان پڑھ حضرات کے لئے کتاب پڑھ کر سنانے کی سہولت بھی موجود ہو گی جبکہ بک ریڈنگ والوں کے لئے چائے کا انتظام بھی ہو گا یقیناً مجید احمد جائی کا یہ اقدام دوسروں کے لئے بھی باعث تقلید ہونا چاہئے دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں بھی لائبریریوں کے مزید قیام اور ان کی رونقیں دوبالا کرنے کا اہتمام ہونا چاہئے نوجوان نسل اخبار اور کتاب سے بالکل دور ہوتی جا رہی ہے اگرچہ اب نیٹ اور موبائل کے ذریعے کتاب پڑھنے کا رحجان بھی پروان چڑھ رہا ہے لیکن جو مزہ کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں ہے وہ جدید ٹیکنالوجی سے کسی صورت حاصل نہیں ہو سکتا۔ کتاب پڑھنے سے اگر کبھی نیند کوسوں دور چلی جاتی ہے تو نصابی کتابیں پڑھنے سے اکثر نیند آ بھی جاتی ہے کتاب ایک بہترین تحفہ ہے جسے محبت کے اظہار کے لئے ایک دوسرے تک پہنچانے کا اہتمام ہونا چاہئے تاکہ ملک میں کتاب بینی کو فروغ مل سکے آج کے دور میں کتابوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور عام آدمی کی پہنچ اور قوت خرید سے کتابیں باہر ہوتی جارہی ہیں حکومتی سطح پر کتاب کو سستا کرنے کے اقدامات بھی ہونا چاہئیں تاکہ پبلشر کی شکایات کا بھی ازالہ ہو سکے اور مصنفین کو رائلٹی بھی دی جا سکے۔ ماضی میں آنہ لائبریریوں کے ذریعے کتاب بینی کو فروغ دینے میں خاصی مدد لی جاتی تھی لیکن اب یہ سلسلہ بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ شہروں میں قائم لائبریریوں کی کتابیں بھی نوحہ خواں ہیں کہ انہیں پڑھنے والے موجود نہیں ہیں اور وہ گرد آلود شیلفوں میں دم توڑتی نظرآرہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں اس قسم کی ادبی لائبریریوں کا قیام خوش آئند ہے کہ اس سے تعمیری اور صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ مل سکتا ہے اور خاص کر نوجوان نسل کو تعمیری سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے دیہی آبادی کو اپنے
ووٹ کے صحیح استعمال کے لئے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ کتاب شناسی انسانی کردار اور شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے اگر اس قسم کی لائبریری میں ان پڑھ افراد کو کتاب سنانے کا اہتمام ہو گا تو ان علاقوں میں شعور بہم پہنچانے کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا ملتان کے علاقے میلسی میں جھنڈیر لائبریری بھی اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے جہاں دور دور سے لوگ اس علمی و ادبی مرکز کو دیکھنے آتے ہیں اور تحصیل علم کے لئے آنے والے تشنگان اپنی علمی و ادبی پیاس بجھاتے ہیں۔ چاہ جائی والا کے مجید احمد نے ظلمت شب کا شکوہ کرنے کی بجائے یہاں ایک شمع روشن کر دی ہے کرن کرن روشنی کے ان کے ساتھی علی ممتاز اور دیگران کے ساتھ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے مخلص نظر آرہے ہیں توآنے والے دنوں میں یہ لائبریری بھی اپنی شناخت قائم کر سکتی ہے۔ اہل علم و دانش کو اس حوالے سے دامے درمے سخنے اپنا تعاون پیش کرنا چاہئے۔ مجید احمد کو کتاب دوستی اور کتاب شناسی اور کتاب کے حصول کے لئے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کو مدنظر رکھ کر انہوں نے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے عام آدمی تک مطالعہ کے رحجان کو بڑھانے کے لئے ان کی یہ کاوش یقیناً لائق تحسین و تقلید ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن بھی کتاب شناسی کے لئے اس وقت میدان عمل میں ہے۔ ادب دوست ڈاکٹر انعام الحق جاوید کتابی انقلاب کے لئے انقلابی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں اور معیاری کتاب کی فراہمی کے لئے کتاب دوستوں کو کم قیمت پر کتابیں فراہم کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اپنی مدد آپ کے تحت قائم کی جانیوالی لائبریریوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ہمارے حکومتی اداروں کو ضرور کوئی انقلابی قدم اٹھانا چاہئے۔ کتابوں کے چمن کو آباد کرنے میں اداروں کا ہی نہیں بلکہ افراد کا بھی حصہ ہونا چاہئے کیونکہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے اس گلوبل ویلج میں بھی انسان تنہائی کا شکار نظر آرہا ہے لٰہذا کتاب دوستی کے ذریعے اس تنہائی کا دور کیا جانا بھی ضروری ہے۔ کتاب معاشی‘ معاشرتی سیاسی اور ادبی انقلاب کا بھی پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے لٰہذا معاشرے میں کتاب دوستی کے رویے کو فروغ دینے کے لئے ہم سب کوا پنے اپنے حصے کی شمع جلاتے رہنا چاہئے۔