علامہ اقبال دنیا بھر میں قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مفکر اسلام اور سیاسی قائد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ایسے رجلِ عظیم کی زندگی کے واقعات کا ان کی جزئیات و کیفیات کے ساتھ سامنے آنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں جب علامہ اقبال گورنمنٹ کالج لاہور کے ہوسٹل میں رہا کرتے تھے تو انہیں بی اے کا طالب علم ہونے کے سبب علیحدہ کمرہ ملا ہوا تھا۔ اسی کمرے میں حضرت علامہ اقبال ”میرِ مجلس“ ہوا کرتے تھے اور فرشی نشست پر ”حُقے“ کا دور چلا کرتا تھا۔ میر غلام بھیک نیرنگ جو ایسی مجلسوں کے چشم دید گواہ تھے انہوںنے علامہ اقبال کی طبیعت کے بارے میں بیان کیا ”اقبال کی طبیعت میں ایک گونہ قطبیت تھی اور وہ ”قطب از جانمی جنبد کا مصداق“ تھے۔ سر عبدالقادر بھی علامہ اقبال کو کبھی کبھی ”قطب از جانمی جنبد“ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے اور علامہ اقبال کو یہ بات اس لئے کہی جاتی تھی کہ وہ نقل و حرکت کے بارے میں بہت تساہل برتا کرتے تھے اور تقریبات میں شرکت کرنے سے بھی اسی لئے گھبراتے تھے کہ کون رسمی تیاریوں کے چکر میں پڑے کیونکہ اقبال عموماً سادہ سے کُرتے اور تہبند میں رہا کرتے تھے۔ لیکن مفکرِ اسلام ‘ فلسفی اور عظیم پیغام سے آراستہ شاعری کرنے والے اقبال وقت آنے پر اُٹھ کھڑے ہونے کا ارادہ باندھتے ہیں تو 1905ءمیں یورپ کا رختِ سفر باندھتے ہیں۔ ستمبر میں لاہور سے دہلی اور پھر ایک دن دہلی قیام کرنے کے بعد بمبئی روانہ ہوتے ہیں۔
علامہ اقبال دہلی قیام کے ایک دن کو یوں گزارتے ہیں کہ انہوں نے جو نظم ”التجائے مسافر“ کے عنوان سے لکھی ہوتی ہے اسے وہ بہ درگاہ حضرت محبوب الہیؒ کے سرہانے بیٹھ کر بآواز بلند پڑھتے ہیں :
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے
یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے
1903ءمیں جب علامہ اقبال کے بھائی عطا محمد پر بلوچستان میں ایک مقدمہ درج ہُوا تو اس دورِ ابتلا میں انہوں نے 35 اشعار پر مشتمل ایک نظم ”برگ گل بر مزار مقدس حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءدہلوی“ کے عنوان سے لکھ کر خواجہ حسن نظامی کی وساطت سے حضرت محبوبِ الٰہی کے مزار پر بھیجی۔ علامہ اقبال کی یہ نظم عرس کے موقع پر پڑھی گئی اور یہ شعر مزار کے دروازے پر لکھ کر لگا دیا گیا :
ہند کا داتا ہے تُو تیرا بڑا دربار ہے
ہو عنایت کچھ ملے مجھ کو بھی اس دربار سے
علامہ اقبال نے دہلی حضرت محبوبِ الٰہی کے مزار پر حاضری دیتے وقت کے تاثرات کو یوں قلمبند کیا:
”اﷲ اﷲ حضرت محبوبِ الٰہی کا مزار بھی عجیب جگہ ہے بس یہ سمجھ لیجئے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے“ علامہ اقبال اس مزار پر حاضری کے بعد رخصت ہوئے تو کہتے ہیں ”شام کے قریب ہم اس مزار سے رخصت ہونے کو تھے سیّد غلام بھیک نیرنگ نے کہا کہ”میاں مرزا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہو جائے کہ شاعروں کا حج یہاں ہی ہوتا ہے اور پھر اقبال اس ویران گوشے میں چلے گئے جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں ”یہاں ایسا گنج معانی مدفون ہے جس پر دہلی کی خاک ہمیشہ ناز کرے گی۔“ اور اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت ایک نہایت خوش آواز لڑکے نے غالب کے مزار کے قریب بیٹھ کر غالب کی یہ غزل چھیڑ دی :
دل سے تری نگاہ‘ جگر تک اُتر گئی
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اس لڑکے نے ایک شعر ایسا گنگنانا شروع کیا کہ جس پر میرا ضبط ٹوٹ گیا۔ آنکھیں پُرنم ہو گئیں اور بے اختیار لوحِ مزار کو بوسہ دے کر اس حیرت کدہ سے رخصت ہُوا وہ شعر یہ تھا :
وہ بادہ¿ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اُٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی!
اور پھر وہ وقت آ گیا کہ علامہ اقبال دہلی کے دوستوں سیّد غلام بھیک نیرنگ اور شیخ محمد اکرام سے رخصت ہو کر اور شہنشاہ ہمایوں اور داراشکوہ کے مزار کی خاموشی کو حیرت کے ساتھ دور دور سے سوچ کر ہی بمبئی رخصت ہو گئے کیونکہ وقت کم تھا اور منزل بہت دور تھی!
علامہ اقبال کی شاعری کی عظمتوں سے اک جہاں آگاہ ہے مگر علامہ اقبال کے نثریہ اظہار میں پایا جانے والا سوز و گداز اور پھر غنائیت سے ابھی تک کم لوگ ہی آشنا ہیں۔ علامہ اقبال بمبئی کے ایک ہوٹل میں اپنے قیام کی روئیداد لکھتے ہوئے کہتے ہیں ”ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں ایک شام نیچے کی منزل میں کرسی پر بیٹھا ہُوا تھا کہ ایک پارسی مرد بغل میں دبائے کوئی چیز چھپا رہا تھا لیکن میں نے خوشی سے اس کو اپنا شوق پورا کرنے کا کہہ دیا تو بولا ”سراب شوک پینے سے سبھی گم دور ہو جائے“ کچھ دیر بعد علامہ اقبال کو ایک اور شخص ملا جو بتانے لگا کہ میں چین سے آیا ہوں اور تجارت کرتا ہوں، اس شخص نے گِلہ کیا کہ چینی لوگ ہماری چیزیں نہیں خریدتے۔ علامہ اقبال کو اس بات سے اندازہ ہو گیا کہ چین اب معاشی ترقی اور تجارت میں آگے آ جائے گا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ میں نے دل ہی دل میں کہا ”شاباش .... افیمیو شاباش.... نیند سے بیدار ہو جائے .... ابھی تم آنکھیں مل رہے ہو اور دیگر قوموں کو اپنی اپنی فکر پڑ گئی ہے۔ علامہ اقبال بمبئی سے یورپ روانہ ہونے کے لئے بحری جہاز میں سوار ہوئے اور کئی دن تک سمندر کی خوفناک لہروں کے جلال اور پھر لہروں کے سکوت کو دیکھتے دیکھتے 12 ستمبر کو لندن کے ساحل پر پہنچ کر اپنے تاثرات یوں قلمبند کرتے ہیں ”ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے اس کی داستان کیا عرض کروں؟ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھیں منور کر لوں۔ اے عرب کی مقدس سرزمین! تجھ کو مبارک ہو! تُو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تُجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تُجھ پر رکھی گئی۔“
علامہ اقبال جب 1932ءمیں گول میز کانفرنس میں شریک ہونے گئے تو واپسی پر ہسپانیہ گئے اور مسجد قرطبہ میں نماز پڑھی اور ہسپانیہ کے دارلخلافہ ”میڈرڈ“ میں ”اسلام اور ہسپانیہ“ کے عنوان سے وہاں کے وزیر تعلیم کے کہنے پر لیکچر دے کر روحانی تسکین حاصل کی۔ حضرت علامہ پر زیارت مسجد قطبہ کے جو غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے وہ چاہتے تھے کہ دوسرے بھی اس سے فیضان حاصل کریں۔ خاص طور پر وہ اپنے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کے لئے یہ خواہش رکھتے تھے کیونکہ وہ ڈاکٹر جاوید اقبال کو وہ ورثہ سونپنا چاہتے تھے جو مسلمانوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے ان کے دل و دماغ میں تھا۔ علامہ اقبال نے ایک تصویری کارڈ اپنے بیٹے کے لئے روانہ کیا جس پر لکھا ہوا تھا ”میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ میں اس مسجد کے دیکھنے کے لئے زندہ رہا۔ یہ مسجد تمام دنیا کی مساجد سے بہتر ہے۔ خدا کرے کہ تم جوان ہو کر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو۔“ ڈاکٹر جاوید اقبال کو 1941ءمیں لاہور ہائی کورٹ کا جج تعینات ہونے کے بعد اٹلی میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کی وجہ سے ہسپانیہ کی سیاحت کا موقع ملا اور ڈاکٹر علامہ اقبال کی کئی خواہشات میں سے ایک یہ خواہش عرصہ دراز کے پوری ہو سکی۔ ہسپانیہ کی سرزمین سے واپسی پر علامہ اقبال نے ”ہسپانیہ“ کے عنوان سے نظم لکھی۔
ہسپانیہ تو خون مسلمان کا امیں ہے
مانند حرم پاک ہے تو مری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تیری بادِ سحر میں
روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
خیمے تھے کبھی جن کے تیرے کوہ و کمر میں
پھر تیرے حسینوں کو ضرورت سے حنا کی؟
باقی ہے ابھی رنگ مرے خون جگر میں
کیونکہ خس و خاشاک میں دب جائے مسلمان
مانا وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں
دیکھا بھی دکھایا بھی‘ سنایا بھی سنا بھی
ہے دل کی تسلی نہ نظر میں‘ نہ خبر میں
آخر میں یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ یہ 21 اپریل کی بات ہے جب ”جاوید منزل“ میں ہجوم تھا۔ ایک کمرے میں ایک میت رکھی ہوئی تھی۔ یہ میت اس مردِ قلندر کی تھی کہ جس نے اپنے نغموں کے ذریعے مسلمان قوم کو زندگی کا پیغام دیا تھا۔ کہتے ہیں علامہ محمد اقبال کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بڑے آرام اور سکون کی نیند سو رہا ہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کا اسلامیہ کالج سے جنازہ بادشاہی مسجد لے جایا گیا اور یہ وہی اسلامیہ کالج ہے جہاں تحریک پاکستان کیلئے جدوجہد کرنے والے پہلے ”شہید“ کی لہو سے رنگی ہوئی قیمض ڈاکٹر مجید نظامی نے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اقبال کے نئے گلستان کے خواب کی تعبیر کے گلاب کھل کر نئے ملک کی خوشبو میں رچ بس چکے تھے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024