ملک کئی ماہ سے آزمائشی دور سے گزر رہا ہے‘ کئی بلاﺅں نے حکمرانوں کو گھیر رکھا ہے۔ دھرنے اور سیلاب کی تباہ کاریاں کسی بلا سے کم تو نہیں۔ عوام گومگو کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں کہ کل کیا ہوگا۔ دھرنے کیا رنگ لائیں گے اور ایک گانے کا کیسٹ سنتے سنتے کان پک جاتے ہیں۔ ایک ہی سالن سے روٹی کتنے دن کھائی جا سکتی ہے۔ بھٹو کیخلاف انتخابات میں دھاندلی کی تحریک نتائج کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ گرم لوہے پر ضرب لگے تو مطلوبہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ عمران خان کی چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی بات مان لی جاتی تو ملک گیر دھاندلی کا پنڈورا بکس نہ کھلتا۔ بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔ اب تو پانچ ہفتے گزرنے پر دھرنے پانی میں مدھانی چلاتے معلوم ہو رہے ہیں۔ بڑی بڑی باتیں چھوڑیں‘ حکومت بجلی کا ہی قبلہ درست کر لے تو اسکی ساکھ بحال ہوسکتی ہے۔ آئندہ بجٹ تک بجلی کے نرخوں میں ایک پیسے کا اضافہ نہ کرے اور کہیں سے فنڈز کا رخ موڑ کر پیسہ آئی پی پیز کو دے تاکہ پیداواری گنجائش کیمطابق پاور جنریشن ہوسکے۔ خواجہ آصف اور عابد شیر علی بھی تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔ بجلی چوری کم نہ ہو سکی۔ چور کبھی کمزور نہیں ہوتا اور بجلی چوری تو بڑے بڑے مگرمچھ ہی کرتے ہیں۔ وزیراعظم تجربہ کار اور دانا شخص ہیں۔ وہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بلوں کو کم کر دیں۔ مہنگائی کا واویلا مچا مچا کر عوام بھی تھک گئے ہیں۔ عمران خان اور طاہرالقادری تنہا نظام کو نہیں بدل سکتے۔ فی الحال تو نظام جوں کا توں لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ گورننس کا یہ عالم ہے کہ رشوت کے سامنے سفارش بھی ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ کام بھی رشوت کے بغیر ہونا ممکن ہی نہیں۔ دھرنوں نے ایک بات ضرور واضح کر دی ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت ایک طرف ہے اور نوازشریف کا ساتھ دے رہی ہے۔ مارشل لاءکے خوف سے ساتھ دے رہی ہے یا جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے۔ نیت ہو تو آئندہ انتخابات کو صاف شفاف دھاندلی سے پاک بنانے کے نئے طریقے مل بیٹھ کر وضع کئے جا سکتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر حکمران اگر معافی مانگ لیں تو انکی انا پر ضرب نہیں لگے گی۔ ہر بات میں رانا ثناءاللہ اور پرویزرشید کو آگے رکھنا بھی ٹھیک نہیں۔ لوگ انکی شکلیں تو درکنار‘ نام بھی سننا نہیں چاہتے۔ ہم طاہرالقادری اور عمران خان کی باتوں پر بھی غور کریں ‘ اگر دل و دماغ ان کی اچھی باتوں کو قبول کرتا ہے تو نوازشریف اور ان کے ہم نواﺅں کو کھلے دل کے ساتھ بلا تامل انکی اچھی اور قابل عمل باتوں کو قبول کر لینا چاہئے۔ اگر نوازشریف خود ناشتے کے وقت خود دھرنے کے شرکاءسے جا کر مل لیں تو ان کی عظمت کو چار چاند لگ جائینگے۔ وزیراعظم نواز گو نواز کے نعروں سے نہ گھبرائیں۔ انہیں فیس کریں۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے کنٹینروں میں چلے جائیں گے تو عمران اور طاہرالقادری کیلئے دھرنوں کو باعزت طریقے سے ختم کرنا آسان ہو جائیگا۔ یہ ملک سب کا ہے‘ نوازشریف تاحیات وزیراعظم نہیں ہیں۔ پانچ سال پورے ہونے پر الیکشن کا سٹیج پھر سجے گا۔ آئندہ سٹیج پر عمران خان کو دولہا بنا کر بٹھایا جا سکتا ہے‘ لیکن یہ کام انکے اہل وطن ووٹر ہی کرینگے۔ شارٹ کٹ سے کبھی کوئی لیڈر نہیں بنا‘ عالم نہیں بنا۔ نوازشریف میں اتنا اعتماد اور گٹس ہونے چاہئیں کہ وہ عمران خان اور طاہرالقادری کا ہاتھ پکڑ کر وزیراعظم ہاﺅس میں لے آئیں۔ ان سے بغل گیر ہوں۔ انہیں آبرومندانہ Exit فراہم کریں۔ پرویزمشرف کیلئے بھی اپنا غصہ اب تھوک دیں۔ دوستوں کی ناراضی دور ہو جائیگی تو سبھی کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ بادشاہوں کے اردگرد حلقہ باندھے وزراءکی ہر بات صحیفہ¿ آسمانی نہیں ہوتی۔ سیلاب کی تباہ کاریاں ٹی وی پر بچہ بچہ دیکھ رہا ہے۔ بندوں میں شگاف ڈالنے پڑے۔ اس نازک وقت میں پاک فوج عوام کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور امدادی سامان فراہم کرنے کا فریضہ ادا کر رہی ہے۔ اسکے علاوہ ایک درجن سے زیادہ محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ بھارت کی چھیڑچھاڑ کے ساتھ افغانستان کے ساتھ مغربی بارڈر پر جھڑپ کے نتیجے میں تین فوجی جوان شہید ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ننگا کرنے کے نہیں‘ افواج پاکستان کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوششوں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔ اس وقت تو سب سے اہم کام سیلاب زدگان کی بحالی ہے۔ محض فوٹوسیشن کیلئے سیلاب زدہ علاقوںمیں جانے سے کچھ نہیں بنتا۔ بے چاروں کی بحالی کیلئے پیسہ درکار ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024