ہمارے ایک دوست ہیں، ڈاکٹر منیر عاصم جن کا تعلق اس نسل سے ہے جو ابھی تک فیصل آباد کو "لائل پور" کہنے پر مصرہیں۔ انہوں نے "فیصل آباد (لائل پور) تاریخ کے آئینے میں" ایک مستند اور معلوماتی کتاب میں ایک جگہ اس کے مصنف اشرف اشعری کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "انہوں نے اس شہر کو لٹھے ملیشیا اور جگت بازوں کی بجائے تاریخ کے حوالے سے تابندہ شہر بنا کر پیش کیا ہے"۔ یہ درست ہے کہ جن لوگوں نے لائل پورکی فضائوں میں سانس لی،اس کے گلی کوچوں میں کھیلے یااس کے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کیا،اس کی مجلس آرائیوں میں شریک ہوئے یا مجھ ایسے لوگ جس کے دوستوں کا ایک وسیع حلقہ اس شہر میں کبھی موجود رہا،وہی اندازہ کرسکتا ہے کہ لائل پور کوعلمی،ادبی اور سیاسی سحر انگیزی میں ایک خاص طرح کاکمال حاصل تھا۔شہر کے نام کی تبدیلی کے بعد اس کی علمی،ادبی اور سیاسی فضائوں کو ضیاء الحق کی نظر لگ گئی۔پھر دوبارہ "ساندل بار" کے اس علاقے سے کوئی دوسرا بھگت سنگھ ، سرگنگارام اور نصرت فتح علی خاں پیدانہ ہوسکا۔ ہر وقت کے اپنے اپنے تقاضے اور اپنی اپنی دوستیاں ہوتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہورمیں مقامی طلباء کے بعد سب سے زیادہ تعداد لائل پورکے طلباء کی ہوتی۔ 1971ء میں گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے لیکر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے آخری سال تک کراچی سے لیکر پشاور تک میں نے انٹر کالجیٹ مباحثوں میں حصہ لیا۔ اردو یا پنجابی زبان کے مباحثوں میں کوئی ایسا نہ ہوتا جس میں لائل پور کے مقررین کی شمولیت نہ ہوتی۔ کئی اچھے، کئی بہت اچھے چند ایک بے مثل مقرر تھے۔ کوئی شعلہ صفت کوئی طنز ومزاح سے بھرپور۔ کوئی علم وادب میں یکتا تو کوئی سامعین کے جذبات سے کھیلنے والا۔ یہی حال مشاعروں میں بھی ہوتا۔ طلباء میں سے بہت اچھے شعراء اپنا کلام پیش کرکے داد سمیٹتے۔ انہی مقررین میں ایک افتخار فیروز تھے۔ اپنے وقت میں لوگ انہیں آغاشورش کا عکس قرار دیتے اگرچہ وہ انٹر کالجیٹ مباحثوں میں حصہ نہیں لیتے تھے، صرف پنجاب یونیورسٹی کے نیوکیمپس تک محدود رہتے۔ اسلامی جمعیت طلباء سے تعلق ہونے کے باوجودتنگ نظر، کوتاہ فکریا لٹھ باز نہیں بلکہ ایک صاحب علم وفضل شخص تھے۔ چونکہ تعلق لائل پور سے تھا اس لئے خوش مزاج بھی تھے۔ ان کے والد یا دادا گوجرانوالہ سے لائل پور چلے گئے تھے۔اس لئے مجھ سے ایک خاص طرح کا تعلق تھا حالانکہ میں اسلامی جمیعت طلباء کے نہ صرف مخالف تھا بلکہ لیاقت بلوچ صاحب کے مقابلے میں یونیورسٹی کی جنرل سیکرٹری شپ کا الیکشن بھی لڑ رہا تھا۔ افتخار فیروز پھر ایسے غائب ہوئے کہ لائل پور میں انہیں ان کے "محفل ہوٹل" تک ڈھونڈنے گیامگر مل نہ سکے۔ پھر گذشتہ سال اخبار کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ امریکہ کے شہر بوسٹن جہاں دنیا کی سب سے عظیم ہارورڈ یونیورسٹی واقع ہے وہاں وفات پا گئے ہیں۔ ایک ہمارے دوست چوہدری نعمت اللہ تھے پنجابی زبان کے بڑے مقرر اورکبھی کبھی اردو مباحثے میں بھی شریک ہوتے۔ میرا امریکہ جانا ہوتا تو اگر وقت اجازت دیتا تو ان سے ملنے شکاگو ضرور جاتا۔ وہاں بھی انہوں نے اپنی خوبصورت دنیا بسائی ہوئی تھی۔ شکاگو میں ہی لائل پور کے ایک بڑے شاعر افتخار نسیم افتی کے ہاں شعروادب کی محفلیں جمتیں۔ وقت پر لگاکر اڑتا رہا۔ پہلے افتخار نسیم نے رخت سفر باندھا اور اعلی درجے کی اردو شاعری چھوڑ کر عدم آباد کوروانہ ہوگئے۔ پھر چوہدری نعمت اللہ بھی اپنی بذلہ سنجیوں، حاضر جوابیوں اور لاجواب تقریروں کی یادیں چھوڑکر شکاگو سے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ارشد ملک اور پروفیسر سلیم اقبال بھی انٹر کالجیٹ مباحثوں میں اپنے نام کا ڈنکا بجاتے رہے۔ ارشد ملک ایک دن خالی ہاتھ لائل پور سے شگاگو چلا گیا۔ شروع شروع میں جب امریکہ سے پاکستان فون کال ملنا بھی مشکل ہوتا تو وہ باقائدگی سے خطوط لکھتا۔ جب کبھی بھی شکاگو جانا ہوتا تو نعمت اللہ، ارشد ملک اور افتخارنسیم کے ساتھ خوب محفل آرائیاں ہوتیں۔ پھر ایک روز معلوم ہوا کہ اب ارشد ملک بھی اس دنیا سے چلا گیا۔ کسی نے بتایا کہ اس نے خود کشی کرلی اور کسی نے اس کے قتل ہو جانے کی خبر دی۔ یہ پردیس کے دکھ بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ بوند بوند تیزاب دل ودماغ پر گرتا رہتا ہے اب اس شہرسے پچھلے سال پنجابی زبان کا ایک منفرد مقرر شیخ اسحاق بھی سب کو چھوڑ کرچلا گیا۔اب اس شہر دلبراں میں ہمدم دیرینہ چوہدری عاشق حسین کنگ ایڈووکیٹ ہے، اللہ اسے لمبی زندگی دے، پنجابی زبان کا ایک بڑا مقرر اور بہترین شاعر ہے۔ آج بھی لائل پور کے یہ سبھی احباب جو دنیا سے چلے گئے یا افتخار سلیمی کی طرح پردیسی ہوگئے، جب یاد آتے ہیں تو وہ پرانا لائل پورشہر اس کے گھنٹہ گھر کی رونقیں، دوستوں کی جگت بھری مجلسیں، شاعروںکی محفلیں، گورنمنٹ کالج کی راہداریاں، اس کے گلی کوچے ،انٹڑکالجیٹ مباحثے، مشاعرے، کچہری بازار کا مرغ پلائو اور کشمیر ہوٹل ایک خواب کی طرح ذہن میں آتے ہیں اور پلک جھپکتے گذر جاتے ہیں۔ لائل پور کے مقررین کے مقابلے میں انعام حاصل کرنا شیر کے منہ سے نوالا چھیننے کے مترادف ہوتا۔یہ وہ دور تھا جب مجھ سمیت، اکرم شیخ ایڈووکیٹ، تنویر عباس تابش، ندیم کوثر، سلیم بھٹی، منظور بھٹی، جسٹس رئوف شیخ، حافظ مختار، شیعہ ذاکرعلامہ ریاض حسین ریاض، نعیم ہاشمی ایڈووکیٹ، رانا ذوالقرنین ایڈووکیٹ، پروفیسر سلیم اقبال اور زاہد خاں جیسے مقررنین کا طوطی بولتا تھا۔ اشرف اشعری صاحب نے "فیصل آباد" (لائل پور) تاریخ کے آئینے میں لکھ کر بہت کچھ یاد دلوا دیا۔ لائل پور کی تاریخ اس کے "فیصل آباد" بننے کا واقعہ اس کی تحصیلیں، قصبات، عجائبات، عمارات، آٹھ بازاروں کے حیرت کدے اس کی مسجدیں، خانقاہیں، یہاںسے اٹھنے والی تحریکیں، یہاںکے ہیرو، شہر کی زراعت، اس کی صنعت کی ترقی، ادب و ثقافت، لوک کہانیاں، اس شہر کی سیاست، صحافت، شخصیات، علمائ، صوفیاء ادبائ، شعراء غرضیکہ زندگی کا وہ کون ساگوشہ ہے جس پر اشعری صاحب نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ یہ کتاب نہ صرف فیصل آباد بلکہ دیگر شہروں کے باسیوں کیلئے بھی دلچسپی کا سبب ہے کہ ایک چھوٹا ساجنگل کن کن مراحل سے گذر کرزندہ وتابندہ انسانوں کا مسکن بنا۔ انسان کس طرح ترقی کرکے قدم قدم آگے بڑھ سکتا ہے، اک داستان ہے حیرت وتعجب کی اور مولا کریم کی انسان پر کرم نوازیوں کی۔
پس تحریر:۔ گذشتہ ہفتے کے روز شائع ہونے والے کالم "ایئرمارشل اصغر خاں"میں اگرچہ ان لوگوں سے معذرت کرلی گئی تھی جن کے نام ذہن میں آئے نہ کالم میں‘ تاہم ملک غلام جیلانی، آصف فصیح الدین وردگ اور چوہدری خالد جمیل کے نام بڑی اہمت کے حامل ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی سیاست کے میدان کے بڑے کھلاڑی تھے۔ تحریک استقلال نے ان کی وجہ سے بڑا عروج حاصل کیا۔ میاں محمود علی قصوری، علامہ احسان الٰہی ظہیر اور دیگر بڑے بڑے رہنمائوں کو انہوں نے تحریک استقلال میں شمولیت پر آمادہ کیا۔ آصف فصیح الدین وردگ بھی ملک غلام جیلانی کی طرح تحریک استقلال کے جنرل سیکرٹری رہے اور پارٹی کے اندر بڑی ہنگامہ خیز سیاست کی۔ کئی دھڑے بنائے اور کئی تڑوائے۔ چوہدری خالد جمیل ایڈووکیٹ تحریک استقلال گوجرانوالہ اور ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری رہے، آج کل علیل ہیں احباب سے ان کی صحت یابی کی گذارش ہے۔