آخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ،بارہ برس قبل کوکب اقبال ایڈو کیٹ کی دائر کر دہ نفاذ اردو کے حوالے سے درخواست کی سماعت چند روز قبل ہوئی جس میں سائل کا موقف تھا کہ قائداعظم کے مطابق اردو ہماری قومی زبان ہوگی۔ اسے سرکاری زبان نہ بنانے کی صورت میں طبقاتی تفریق بڑھتی جا رہی ہے۔محب وطن شہریوں کے شہری عام سکولوں میں اور امراء کی اولاد آکسفورڈ کا نصاب پڑھ رہی ہے غریبوں کے بچے سی ایس ایس اور دیگر مقابلے کے امتحانات میں انگریزی نہ جاننے کے باعث کامیاب نہیں ہو پاتے جس کے باعث پاکستان بنانے والوں کے بچے کلرک اور استاد ہی رہ جاتے ہیں اس کے جواب میں عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی پر اہل اقتدار بھی قابل سزا ہیں آئین پر عمل نہ کرنے سے ملک میں لاقانونیت پھیلتی ہے حکومت دہشت گردوں کو تو کہتی ہے کہ ملک کے آئین کو نہیں مانتے وہ جواب دیتے ہیں کہ حکومت خود کون سے آئین کی پاسداری کر رہی ہے جسٹس خواجہ نے کہا کہ کیا آرٹیکل 251آئین کا حصہ نہیں اگر ہے تو اس پر عمل کب ہوگا ؟ کیا ملک ابھی تک استعمار کی کالونی ہے عدالت نے اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے سے متعلق تاخیر کی وجوہات طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ تاخیر کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اگر شروع میں ہی پاکستان کو جسٹس جوا د جیسے محب وطن جرات مند عدلیہ میسر آجاتی تو آج ہم جن مسائل اور بحرانوں کا شکار ہیں ان سے نہ گزرنا پڑتا پاکستان کے محب وطن عوام اپنے اس عظیم سپوت پر فخر کرتے ہوئے ان کی جرات اور قومی امور کی اہمیت کے ادراک کو سلام پیش کرتے ہیں دریں اثناء راولپنڈی آرٹ کونسل میں نفاذ اردو کے حوالے سے ایک جامع کانفرنس منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی جنرل حمید گل نے درد بھرے انداز میں کہا کہ پاکستان اور اردو لازم و ملزوم ہیں۔زبان کسی تہذیب و ثقافت کی تعمیر میں سب سے زیادہ موثر ہتھیار ہوتا ہے ہم نے قائداعظم کے فرمان کے برعکس زبان غیر کو قومی زبان پر ترجیح دے رکھی ہے جبکہ پاکستان کی بقا ، خوشحالی او ر ترقی کا راز اردو زبان کے نفاذ میں وابستہ ہے کانفرنس کے صدر پروفیسر مجاہد منصوری نے کہا کہ زبان تہذیب سازی کا اوزار ہے پاکستان میں اردو کا نفاذ ایک آئینی مطالبہ ہے اگر ایسا نہ ہوا تو تو یہ بڑے قومی جرم کا ارتکاب ہو گا نفاذ اردو کو روکنے والے آئین پاکستان کے غدار ہیں کیونکہ اردو ایک زبان ہی نہیں ہمارا مستقبل بھی ہے پاکستان میں اجنبی زبان کی وجہ سے والدین طالب علم اور اساتذہ اذیت میں مبتلا ہیں انگریزی سے عدم واقفیت کے جر م میں کروڑوں بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں معروف صحافی رانا عبدالباقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو پاکستان کے گوشے گوشے میں بولی جانے والی زبان ہے اگر قومی زبان کے نفاذ میں مزید تاخیر کی گئی تو انقلاب برپا ہوجائے گا تحریک جوانان پاکستان کے قائد عبداللہ گل نے نفاذ اردو کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انگریزی سکولوں میں قومی زبان کو نظر انداز کرتے ہوئے گورے آقائوں کی زبان کو مسلط کر دیا گیا ہے ہماری قومی زبان ہمارا اثاثہ ہے پاکستان قومی زبان تحریک لاہور کے صدر پرورفیسر سلیم ہاشمی نے پاکستان نفاذ اردو کے رستے میں حائل رکاوٹوں کو بیان کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ارض وطن میں نسل نو کے بہتر مستقبل کے لئے فوری طور پر قومی زبان کا نفاذ کیا جائے تحریک کے سیکرٹری پروفیسر زاہد محمود نے کہا کہ دنیا کی ہر زبان قابل عزت ہے لیکن یہ جرم عظیم ہے کہ جس کو انگریزی نہیں آتی اس پر علم کے دروازے بند کر دیے جائیں ہمارے سادہ شریف اور بھولے بھالے حکمرانوں کو افسر شاہی غلط مشورے دے رہی ہے کہ ترقی و خوشحالی انگریزی زبان سے وابستہ ہے حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز کے کروڑوں بچے کمزور انگریزی زبان میں محدود اور معروضی علم حاصل کرتے ہوئے تخلیق و تحقیق کی دنیا سے محروم رہتے ہیں صوبہ سرحد سے سید ناصر علی نے کہا کہ اردوقومی زبان ہوتے ہوئے بھی اپنی آئینی حیثیت کھو چکی ہے ملک و قوم کے اتحاد و یکجہتی کی بنیاد اردو زبان ہے اگر اب بھی قومی زبان کے نفاذ میں تاخیر کی گئی تو قوم علاقائی لسانی عصبیت کا شکار ہو کر بکھر جائے گی پشاور سے آئے ہوئے معروف شاعرو ادیب سجاد اکبر نے اپنی گفتگو میں خوبصورت اشعارپڑھے صوبہ سندھ اور شہر قائد کی نمائندگی کرتے ہوئے معروف شاعر اور دانش ور سید عارف مصطفی نے کہا کہ جب حمید گل جیسے مرد مجاہد محافظ زبان بن جائیں تو پھر قومی زبان کا نفاذ ہو کر رہے گااور اس قوم کی تقدیر بدل جائے گی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹر طالب حسین نے کہا کہ اردو پاکستان کے ہر گھر میں نفوذ کر چکی ہے اور اردو زبان کا اعجاز ہے کہ یہ محض قومی زبان نہیں بلکہ پاکستان میں اظہار کی زبان علمی زبان تحقیقی زبان فلسفہ اور ادب کی زبان کے ساتھ ساتھ جمہور کی زبان بن چکی ہے بلکہ اب اردوکا شمار بین الاقوامی زبان میں ہوتا ہے معروف شاعرہ رضوانہ سید علی نے کہا کہ قومی زبان کے نفاذ سے ہی اس قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے قومی زبان تحریک کی متحرک رہنما فاطمہ قمر نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام کی تمام خرابیاں انگریزی زبان کی وجہ سے ہیں اگر آج بھی قومی زبان کو تعلیمی و تدریسی زبان بنا دیا جائے تو نقل رٹہ ٹیوشن اور تعلیم کی تجارت کا خاتمہ ممکن ہے لٹریری آرٹ اینڈ کلچرل سینڈی کیٹ کی سربراہ محترمہ فرحین چودھری ناظم کانفرنس کے ساتھ نقیب کانفرنس کے فرائض بھی انجام دیے ۔کانفرنس کے آخر میں چند قرار دادیں پیش کی گئیں (۱) جماعت اول تا پی ایچ ڈی بشمول مقابلے کے امتحانات اردو میں ہونے چاہیں۔(۲)تمام تر سرکاری دفاتر میں زبانی و تحریری کاکردگی صرف اور صرف اردو میں ہو۔ (۳)ہماری مقننہ اور عدلیہ کی تمام تر کارروائی قومی زبان میں سرانجام دی جائے ۔(۴)خط نستعلیق کو قومی خط قراردیا جائے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024