قارئین! تحریر ڈائری کے صفحات کی صورت میں ہو‘ کسی مربوط انداز میں ہو یا ادب کی کوئی صنف ہو بنیادی طور پر لکھنے والے کی اظہار ذات کا ذریعہ ہوتی ہے اور اظہار ذات کے کسی ذریعے پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ تحریر کے پیش نظر یا پس منظر کچھ بھی ہو پس منظر میں لکھاری کی سوچ بچار‘ فکر و تدبر‘ زاویہ نظر بلکہ وہ خود موجود ہوتا ہے لہٰذا معاشرے کی موجودہ پُرفشار صورتحال ‘ روحانی انتشار‘ روشتوں رابطوں کا انحطاط‘ اخلاقی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ اور جذبوں‘ جذبات کا کھوٹا پن بہت کچھ ہمارے اردگرد ایسا موجود ہے جس کے بارے میں سوچیں‘ لہر دو لہر اٹھی رہتی ہیں اور سکون قلب بھنور میں رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ سارا تلاطم کبھی بھرپور کالم کی صورت میں ‘ کبھی صوفیانہ اشعار کے ملبوس میں‘ کبھی کسی افسانے کے روپ میں‘ کبھی طنزومزاح کی شکل اور کبھی اقوال و افکار کے حوالے سے نوک قلم تک آتا رہتا ہے۔ آپ قارئین کی نظر سے گزرتا رہتا ہے آج بھی اپنی ڈائری سے چند اقوال وافکار پیش ہیں۔
٭ روحانی اور اخلاقی اقدار چھوڑ کر صرف سائنسی ترقی پر مت مر مرٹیں کیونکہ سائنس محض کارنامہ ہے‘ روحانیت کرامت ہے‘ سائنس متاثر کرتی ہے‘ روحانیت معجزے کرتی ہے‘ سائنس عارضی و دنیاوی ارتقاء ہے جبکہ روحانیت کا ارتقاء آخرت کا عروج ہے اور آخرت بجائے خود دائمی زندگی ہے۔
٭ برا نہ ہونا بھی نیکی ہے۔
٭ ’’روحانیت‘‘ اپنی روح سے ہر قسم کی بدی ‘ برائی‘ بدنیتی کی گرد صاف کرکے اللہ تعالیٰ کے روبرو ہونے کا نام ہے جس طرح آئینے سے گرد صاف کردی جائے تو چہرہ بالکل صاف نظر آنے لگتا ہے۔ اسی طرح اپنا اندر صاف رکھیں تو اس میں ’’وہ‘‘ صاف نظر آنے لگے گا۔
٭ روحانیت عبادت کی بیٹی ہے لیکن بجائے خود براہ راست عبادت نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات عبادت میں آپ کی روح نہیں جھکتی صرف آپ جھکتے ہیں‘ یوں محض ظاہری اور باہری عبادت بے معنی ہوجاتی ہے جبکہ آپ اگر کھری عبادت اور روحانیت دونوں کو آپس میں ملا دیں تو یہ اس تک پہنچنے کا آسان و بہترین راستہ ہے۔
٭ عزت اور محبت دو جڑواں جذبے ہیں آپ صرف اسی سے محبت کرتے ہیں جس کی عزت کرتے ہیں اور عزت صرف اسی کی کرتے ہیں جس سے محبت کرتے ہیں۔ اگر آپ دونوں میں سے کوئی بھی ایک کام نہیں کررہے تو دراصل آپ دونوں کام نہیں کررہے ۔
٭ فاصلے اور قربت میں اعتدال رکھیئے آپس میں تعلقات مضبوط ہوں گے۔
٭ دنیا میں عروج و زوال‘ عہدہ و مرتبہ اور خوش قسمتی و بدقسمتی گھڑولی میں پڑی ہوئی ان جونکوں کی مانند ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ہر لمحہ کروٹ بدلتی رہتی ہیں‘ کبھی ایک اوپر آجاتی ہے کبھی دوسری تہہ میں اتر جاتی ہے جس طرح ان کا اوپر نیچے ہونا ان کی فطرت اور حالات کے عین مطابق ہے اسی طرح انسان کے اچھے برے حالات کا بھی دھوپ چھائوں جیسی کیفیت میں رہنا عین فطری اور قدرتی عمل ہے۔ یاد رکھیئے کوئی بھی کیفیت کبھی حتمی نہیں ہوتی‘ تبدیلی کا عمل بجائے خود یقینی اور حتمی ہوتا ہے سو کامیابی کی خاطر ہر قسم کے حالات سے سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار رہیئے۔
٭ اگر ہر انسان انفرادی طور پر خود آگاہ ہوجائے اور اپنی بڑائی یا اچھائی پر خود ہی اعتبار کرلے تو وہ بڑا ہونا شروع ہوجاتا ہے لیکن اس کی رفعتوں اور عظمتوں کا قد تب بڑھے گا جب اس کی خود آگہی اور ذاتی بڑائی کا تصور مثبت اور عاجزانہ ہو‘ فرعونانہ اور مجنونانہ نہ ہو۔
٭ بظاہر مذہب‘ عرفان اور روحانیت تینوں الگ الگ خصوصیات ہیں مگر سب کی بنیاد شریعت ہے۔
٭ احسان فراموش اور کمینے شخص کے ساتھ آپ کا احسان یا نیکی کرنا پانی کو پڑیا میں باندھ کر رکھنے کے مترادف ہے۔یاد رکھیئے دنیا میں ایٹم بم سے بڑھ کر بھی ایک اور تباہ کن طاقت کام کررہی ہے اور وہ ہے ’’حسد‘‘ ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرکے انسان کا ضمیر بیدار ہوکر اس کا سکھ اور قرار تباہ کردے مگر موجودہ دور میں انسان نیکی کرکے سہم جاتا ہے سوچتا ہے خدا جانے یہ نیکی کیا انجام دکھائے گی کتنا نقصان اور خسارہ اسے اٹھانا پڑے گا‘ سو بہتر ہے بدنیت لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے سے تائب ہوجائیں لیکن اگر کر گزریں تو بھول جائیں۔
٭ اگر آپ خود کو خود ہی حقیر‘ بزدل اور احمق نہ سمجھیں تو آپ کے بارے میں کوئی دوسرا شخص یہ رائے قائم نہیں کرسکتا۔ آپ اپنی عظمت ذات کے خود قائل نہیں ہوں گے تو دوسرے کیسے ہوسکتے ہیں…؟
٭ یہ محبت کے فقدان اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے موجودہ بحران سے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ رشتوں کے پرکھ صرف آپ کا ’’مالی سلوک‘‘ رہ گئی ہے؟
٭ جنگ دو ملکوں میں ہو یا جھگڑا دو انسانوں کے درمیان ’’ذہنی معذوری‘‘ کا نام ہے۔ یاد رکھیئے زندگی مشن ہے‘ مشین نہیں…
٭ اگر آپ تلخ ہری مرچ یا کوئی دوسری شدید مرچیلی چیز کھانے کے بعد منہ میں ایک دم چینی ڈال لیں تو زبان کی جلن دہ چند ہوجاتی ہے یہی حال انسان کے ساتھ انسان کے بلاجواز ظلم وستم اور ناانصافی کا ہے۔ ظالم کے بے وقت پچھتاوے یا ہمدردی سے مظلوم کی دکھن اور دل کی جلن ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔
٭ سائنسی نقطہ نظر سے ٹیلی ویژن کی تصویر کو صاف دیکھنے کیلئے ایک مخصوص فاصلہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس اصول کو اگر ہم اپنی عام زندگی میں تعلق داری کے حوالے سے Apply کریں تو بھی حد درجہ مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ کسی کے اتنا قریب مت جائیں کہ وہ آپ کے محاسن اور خویبوں کی پہچان نہ کرسکے اور آپ اس تصویر کی طرح دھندلا جائیں جو آنکھوں کے بے حد قریب ہونے کی وجہ سے واضح نظر نہیں آتی۔
٭ اچھی بات نہ سننا بھی ایک برائی ہے۔
٭ خلق خدا سے محبت انسان کو اپنی باقی تمام تر صفات میں سے سورۃ یاسین کی طرح پیار ی ہونی چاہئے یہ صفت قرآن حکیم کے دل کی طرح اہم ہے۔
٭ جس طرح چوٹ تازہ ہو تو اس کے درد کا صحیح اندازہ نہیں ہوپاتا اس طرح آپ کو اپنے ساتھ ہونے والی کسی کی بدی ‘ بدنیتی اور کمینگی کا بھی فوری طور پر اندازہ نہیں ہوسکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سارے خسارے آپ پرکھلتے ہیں…
٭سچ اور جھوٹ قطعی اور حتمی طور پر دو الگ الگ خصوصیات ہیں۔ آپ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے درجنوں جھوٹ بول سکتے ہیں مگر سچ کو جھوٹ قرار دینے کیلئے کچھ نہیں کرسکتے… وہ ظاہر ہوکر رہے گا۔
٭ خودآگہی کا بیج‘ حیرت‘ صدمات اور صبر سے پھوٹتا ہے۔
٭ اگر زہر کا علاج زہر سے ہوتا ہے تو پھر انسان کے ظلم و ستم کا توڑ بھی اسی دائو سے کیا جاسکتا ہے مگر صبر تریاق ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024