کچرے کے ڈھیر سے ملنے والی کمسن زینب کی نعش نے بہت سے سوال اُٹھا دئیے ہیں۔ میںیہ سوال قانون سے پوچھوں، کسی عدالت، پولیس یا معاشرے کے ہر فرد سے، کہ میری زینب کو کیوں مار ڈالا؟ وہ میری ہی تو بیٹی تھی۔
9جنوری کا دن تھا۔ رات دیر سے سویا، اس لیے دیر سے اُٹھا۔ لگ بھگ گیارہ بجے دن مجھے میڈیا کی وساطت سے پتہ چلا کہ قصور میں پھر ایک بھیانک سانحہ رونما ہو گیا ہے۔ جو معلومات مجھ تک پہنچیں اُس کے مطابق کچرے کے ڈھیر پر کمسن زینب کی نعش پڑی ہوئی تھی۔ سات سالہ زینب قرآن پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی۔ اُسے خالہ کے گھر جانا تھا۔ جہاں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ لیکن وہ نہ آئی۔ اُس کی تلاش شروع ہوئی لیکن وہ نہ ملی۔ تھانے میں گمشدگی کی رپٹ درج کرا دی گئی، لیکن بے سود۔ پھر چند ہی گھنٹوں بعد ایسا انکشاف ہوا جس نے ہر شخص کو رُلا دیا۔ زینب کچرے کے ڈھیر سے ملی تو پولیس نے پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال پہنچا دیا۔ جہاں انکشاف ہوا کہ کسی درندے نے بچی کے ساتھ زیادتی بھی کی ہے۔ آناً فاناً اِس ’’وقوعہ‘‘ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔ قصور کے شہری سینکڑوں کی تعداد میں گھروں سے نکل آئے۔ اُن کے اشتعال کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سرکاری املاک سمیت مقامی ایم پی اے کے ڈیرے پر حملہ کر دیا۔ پُرتشدد واقعات نے اتنا زور پکڑا کہ پولیس کو ڈی سی آفس کے باہر ہنگامہ کرنے ولے مظاہرین پر گولی چلانا پڑی۔ جس سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔ جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ حالات کی نزاکت کے پیش نظر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی دن کے بجائے علی الصبح قریباً پانچ بجے مقتولہ کے گھر پہنچے اور زینب کے والد کو یقین دلایا کہ وہ ملزم کو گرفتار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
اس اندوہناک واقعہ پر نہ صرف سماجی بلکہ سیاسی اکابرین نے بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو باقاعدہ تحریک چلانے کا اعلان کر دیا جبکہ اُن کی حمایت میںعمران خان بھی میدان میں کود پڑے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنمائوں نے بھی اپنے سیکرٹریٹ سے تعزیتی بیان جاری کیے۔ حکومت وقت اور پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ جبکہ شہر قصور میں ہونے والے ہنگاموں میں بھی تین روز تک کوئی کمی نہ آئی۔ نامعلوم ملزم کی سی سی ٹی وی کیمرے سے حاصل کی جانے والی فوٹیج بھی ہر چینل کی ٹی وی سکرین پر نظر آئی۔ جس میںاُسے بچی کو لے جاتے ہوئے صاف دیکھا گیا۔ لیکن اس فوٹیج کے باوجود پولیس، ہمارے ادارے اور ایجنسیاں ملزم کی شناخت میں ناکام رہے۔
تاہم فوٹیج دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ بچی، ملزم کو پہلے سے جانتی تھی۔ نہ جانتی ہوتی تو کبھی اس اعتماد کے ساتھ ملزم کے ساتھ نہ جا رہی ہوتی۔ پولیس بھی یقینا اس نکتے پر غور کر چکی ہو گی اور اس کی تفتیش بھی اس اہم نکتے کی روشنی میں آگے بڑھ رہی ہو گی۔ تفتیش کے اختتام پرہی معلوم ہو گا کہ اس کا رزلٹ کیا نکلتا ہے۔
قصور پنجاب کے کیپٹل لاہور سے چالیس منٹ کی مسافت پر صرف 62کلومیٹر دور ہے۔ اس کی آبادی زیادہ نہیں ، ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل یہ شہر اپنا تاریخی اور جغرافیائی پس منظر رکھتا ہے۔ ملکۂ ترنم نور جہاں کا تعلق بھی اس شہر سے تھا۔ قصور میں کوئی بڑی صنعت نہیں۔ یہ ٹینریز کے لیے مشہور ہے۔ لیکن یہاں جنسی جرائم کی شرح دیگر اضلاع سے زیادہ ہے۔ زینب سے پہلے جنسی درندگی کے 11واقعات قصور میں پیش آ چکے ہیں۔ جن میں سے کسی ایک کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ قصور میں ہی چند سال قبل کمسن بچوں کے ساتھ ایک گروپ کی جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے تھے۔ اُن کی ویڈیوز بھی منظر عام پر لائی گئیں۔ مگر افسوس کہ ہمارا قانونی اور عدالتی نظام ایسا ہے کہ مجرمان ہمیشہ سزا سے بچ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جرم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں جنسی جرائم کا کاروبار اور تسلسل کے ساتھ ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم ذہنی طور پر کتنے انحطاط پذیر ہو چکے ہیں۔
کمسن زینب اب دنیا میں نہیں۔ وہ ایک چھوٹی سی چار فٹ کی لحد میںاتر چکی ہے۔ لیکن اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گئی ہے کہ زمین کے خدائو!بتائو میرا قصور کیا تھا؟ نامعلوم انکل نے مجھے کیوں مار ڈالا؟ مجھے لحد میں اترنے پر مجبور کر دیا۔
ماں! میرے لیے مت رونا۔ مجھے اب نہیں آنا۔ میں یہ دیس چھوڑ چکی۔ ایک انکل نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی۔ ماں! انکل ایسے بھی ہوتے ہیں۔ کیا اس انکل کی کوئی بیٹی نہیں تھی۔ ماں! اس انکل نے مجھے رُلا رُلا کر مارا۔ مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ماں! اب میں تجھے کیسے بتائوں میرے ساتھ کیا ہوا۔ کیسا ظلم ڈھایا گیا۔ ماں! تو میری چھوٹی سی تکلیف پر تڑپ اٹھتی تھی۔ میں جس ظلم کا شکار ہوئی ۔ماں! تجھے نہ ہی پتہ چلے تو اچھا ہے۔ تو تڑپ جائے گی۔ روئے گی۔ ماں! مجھ سے تیرا رونا دیکھا نہیں جائے گا۔ اس لیے ماں میں چپ ہو گئی۔ ہمیشہ کے لیے چپ۔خدا نے اسی لیے ہمیشہ کے لیے چپ کرا دیا ہے کہ میں اپنے منہ سے تجھے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی کہانی نہ سنا سکوں۔ تُو سنے گی تو تیرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ہاں۱ حکمرانوں سے ضرور کہنا کہ وہ اس انکل کو ضرور تلاش کریں۔ اسے سخت سے سخت سزا دیں۔ انکل تو ایسے نہیں ہوتے۔ جیسا یہ انکل تھا۔
ماں! ایک بار ہوئی جو پیدا
مجھ کو خود سے دور نہ کرنا
مجھ کو خود سے دور نہ کرنا
٭…٭…٭