اللہ بہتر جانتا ہے کہ میاں نواز شریف کی اس بات میں وزن ہے کہ نہیں کہ نگران جج کے تقرر کا مقصد انہیں سزا دلانا ہے۔ دوسری جانب عمران خان جلسے پر جلسے کر رہے ہیں تا کہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد مزید اقدامات کے لئے فضاء ہموار کی جائے اور ممکن ہے کسی ادارے کو دبائو میں لایا جائے۔خود پر سیاسی دبائو کم کرنے کے لئے جناب نواز شریف کے پاس ایک ہی بڑا ہتھیار ہے کہ وہ اپنی حمایت عوام میں کم نہ ہونے دیں۔ میاں صاحب کو یاد ہو کہ جی ٹی روڈ کے بعد نواز شریف پر سیاسی دبائو کم ہوا تھا۔ سیاسی مخالفین حیران رہ گئے کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی میاں صاحب عوام میں مقبول ہیں۔
حیرانگی کی بات ہے کہ میاں صاحب خاموش رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اب مشکل ہے 12 نومبر کو ایبٹ آباد میں جلسے کا اعلان ہوا ہے۔ جب کہ ضروری ہے کہ میاں صاحب مشورے کے ذریعے منتخب کر کے ہر ہفتے میں دو جلسے ضرور منعقد کریں۔ اللہ تعالیٰ کے بعد بڑی طاقت عوام کی ہوتی ہے۔ بڑے عوامی جلسے، تمام معاملات کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ فضول مشوروں اور بے مقصد الجھنوں میں گرفتار ہونے کی بجائے اور بیکار کی بحثوں میں پڑنے کی بجائے میاں صاحب رابطہ عوام کی زبردست مہم چلائیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔میاں صاحب عوامی رابطے کی مہم چلانے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کریں گے تو غلطی کریں گے اور ان کے خلاف ’’مناسب اقدامات‘‘ ہو جائیں گے۔ جن جلسوں میں میاں صاحب خطاب کریں، ان میں مریم نواز کو بھی خطاب کا موقع دیں۔ وہ جچی تلی گفتگو کرتی ہیں۔ میاں صاحب، بیگم صاحبہ کی علالت کی وجہ سے باہر تشریف لے جائیں تو مریم نواز میدان میں رہیں صرف حلقہ 120 تک کیوں محدود رہتی ہیں۔ پورا لاہور ہے۔ منتخب شہر ہو سکتے ہیں گوجرانوالہ وغیرہ۔
صاف بات ہے جن کو نکلنا ہے وہ نکلیں۔ جن کو بیٹھنا ہے بیٹھے رہیں۔ مگر میاں صاحب اور مریم نواز کی راہ نجات گھر سے نکلنے میں ہے۔ بڑے عوامی جلسوں میں ہے۔ رابطہ عوام کی مہم میں ہے ؎
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
میاں صاحب کو ہمارا یہ بھی نہایت مخلصانہ اور عاجزانہ مشورہ ہے کہ وہ بلا سبب عسکری قیادت کو ٹارگٹ نہ بنائیں۔ یہ تو پی ٹی آئی ، عمران خان اور شیخ رشید کی سازش ہے یہ ان کا گیم ہے۔ پاکستان کے حالات میں فوج کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کر کے نئے لائحہ عمل کو مرتب کیا جائے۔ خلوص نیت سے اس پر عمل کیا جائے۔’’وہ‘‘ میاں صاحب کے لائے ہوئے ہیں۔ میاں صاحب ’’اُن‘‘ سے ملکر دل کا بخار نکال لیں۔ جہاں تک ان کو سنا ہے وہ بہت Reasonable شخصیت ہیں۔
ادارہ کوئی بھی ہو اس کی اہمیت ہے۔ لوگ Communication Gap سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سب سے رابطے ضروری ہیں۔ آخر سب انسان ہیں۔ انسانی فطرت اور نفسیات ایک ہی ہوتی ہیں۔ کوئی نہ ملے تو اور بات ہے۔ رابطوں سے تلخی دور ہوتی ہے۔پھر یہ بھی کہ سیاست مشکل شعبہ ہے۔ اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔ ہماری حالیہ تاریخ میں بھٹو صاحب کی مثال ہے۔ پاکستان کا صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، ماضی کا بہترین مقرر، جس کی آواز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گونجتی تھی۔ وزیراعظم بے مثال لیڈر، اسلامی سربراہ کانفرنس کا سربراہ۔ مگر کیا ہوا، سپریم کورٹ نے پھانسی دے دی۔ ضیاء الحق نے Split فیصلے پر عمل کر دیا۔ بعد میں کسی جج صاحب نے بلکہ جناب جسٹس نسیم حسن شاہ نے ’’پول‘‘ کھول دیا ؎
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا
جیل ہو بھی گئی تو کیا ہوا۔ اپیلیں بھی ہیں۔ فیصلوں کے بعد تنقید ممکن ہے محض خدشات کی بنیادوں پر نکتہ چینی قانونی طور پر نا مناسب ہے۔ ہم احتیاط کریں گے۔ عدالتی فیصلوں کے حوالے سے ادب و احترام ضروری ہے۔ اس اظہار حقیقت کے بعد گزارش ہے کہ نواز شریف آج بھی پاکستان کے سب سے مقبول رہنما ہیں۔
جناب نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو ایک مرحلہ یہ درپیش ہے کہ کسی طرح مارچ میں سینٹ الیکشن تک رسائی حاصل کر لیں۔ مگر میاں صاحب عمران خان کی بے چینی اور اضطراب کو محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ اقتدار عمران خان کی منزل ہے۔ ہر صورت میں ہر قیمت پر۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ الیکشن جلد ہوں کیونکہ ن لیگ کی پریشانیوں کی وجہ سے تقسیم خیالات کی شکار ہے مگر لوہا گرم ہے۔ انگریزی کی کہاوت ہے Struck when iron is hot۔ مگر تُرپ کا پتہ اس حوالے سے بھی عمران خان کے پاس ہے۔ کے پی کے اسمبلی توڑ کر وہ سینٹ انتخاب کے مسئلے کو بحران کے حوالے کر سکتے ہیں۔
مناسب ہے کہ جناب نواز شریف کچھ فیصلے اللہ کی ذات پر چھوڑ دیں۔ تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں، سندھ اسمبلی نے جلد الیکشن کے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں عمران کے پی کے اسمبلی نہیں توڑ سکیں گے۔حالات غیر یقینی ہے۔ میاں صاحب اپنی پارٹی کو بتا دیں کہ وہ ہی قائد ہیں اور کسی مائنس فارمولے کو کسی صورتحال میں قبول نہیں کریں گے۔ مریم نواز نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ میاں صاحب کا عطیہ نہیں ہے۔ انہوں نے شبانہ روز محنت سے اپنی جگہ بنائی ہے۔ وہ کیوں اس سے دستبردار ہوئی۔ عوام ان کو بحیثیت رہنما قبول کرے تو کسی کو کیا اعتراض ہے۔ سزا سے وہ نہیں ڈرتی ہیں اور ایسی سزا چلے گی بھی نہیں۔