مشرق وسطیٰ چونکہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہے اس لئے ہم زیادہ تر کالم مشرق وسطیٰ سے وابستہ امور پر ہی لکھتے ہیں۔ ہمیں عرب حکمرانوں پر تنقید پر اعتراض نہیں مگر کم از کم حکمرانوں کے نام تو درست لکھیں۔امارات کا دارالخلافہ ابوظبی ہے۔ (اسے ابوظہبی لکھنا غلط ہے۔ ”ظبی“ خوبصورت ہرن کو کہتے ہیں یہاں ہرن وافر ہیں۔ اس وجہ سے آل نھیان کا وائلڈ لائف سے قلبی لگا¶ فطری ہے۔ رحیم یار خان میں ہرن ‘ تلور اور دوسرے حیوانات و پرندوں کی افزائش نسل پر اماراتی حکمران کثیر سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں ویلفیئر کے کئی اہم اقدامات اماراتی حکومت کر چکی ہے۔چونکہ اہل ابلاغیات اکثر عرب قبائل‘ روایات و اقدار اور حکمرانوں اور عوام میں میسر رابطہ کی سیاسی و ثقافتی قدر سے ناواقف ہیں لہذا سمجھتے ہیں کہ امارات و سعودیہ میں اپنے شہریوں پر بادشاہ بہت ظلم کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ الجزیرہ کی کہانی کو سمجھنے کے لئے مصری حکمران جنرل جمال عبدالناصر کی سعودی دشمنی کو سمجھیں۔ قاہرہ سے ”صوت العرب“ کے نام سے ایک ریڈیو پروگرام عربی میں 1950ءسے 1960ءتک نشر ہوتا رہا تھا۔ جنرل جمال عبدالناصر کے سیکولر قوم پرستانہ عرب ازم کا یہ ثقافتی اور سیاسی یلغار پروگرام تھا جس کی زد دو ٹوک سعودیہ پر پڑتی تھی۔ سعودیہ دشمنی جمال ناصر کے ہاں کتنی تھی ؟ جب شاہ سعود کے 11 سالہ اقتدار نے سعودیہ کو مقروض کر دیا اور ان کی فضول خرچیوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہو گیا۔ تو ولی عہد فیصل نے ان کے یونان دورے کے موقع پر اقتدار حاصل کیا۔ جنرل ناصر نے شاہ سعود کو اپنے ہاں مدعو کیا کچھ شہزادے بھی ناراض ہو کر فیصل سے دور ہٹ گئے اور قاہرہ جمال ناصر کے ہاں جا بیٹھے اور صوت العرب کے ذریعے ناصری ازم کے حامی بن گئے۔ شاہ فیصل کے شانہ بشانہ بیروت کے روزنامہ الحیات کے کالم نگار صلاح الدین المنجد کھڑے ہوئے اور صوت العرب کا جواب دیا۔ سعودیہ ”سیکولر عرب ازم“ کی بجائے عربی عجمی اسلامی اتحاد اور کتاب و سنت کو بطور اسلامی ایجنڈا پیش کرتا رہا۔ یوں مسلمان دنیا شاہ فیصل کے ساتھ آ ملی اور جمال ناصر تنہا رہ گیا۔ اس نے یمن میں ایک جنرل کو بغاوت کے ذریعہ سیکولر حکومت قائم کرنے میں مدد دی جو دو ٹوک سعودیہ دشمنی تھی۔ مصر اسرائیل لڑائی میں ناصر کی شکست کے بعد سعودیہ اور خلیجی ر¶سا سیاسی و ثقافتی طور پر درست راستے کے راہی ثابت ہو گئے اور مسلمان دنیا کی قیادت سعودیہ کو ازخود مل گئی۔ 1996ءمیں قطر کے حکمران الشیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے سعودیہ و خلیجی ر¶سا کی دشمنی میں صوت العرب کو الجزیرہ کے نام سے نئی زندگی دی۔ گزشتہ ایک کالم میں ہم الشیخ حمد بن خلیفہ اور ان کے نائب وزیراعظم‘ پھر وزیراعظم (جو قطری شہزادہ کے نام سے آج کل ہمارے ہاں ”حماد“ کے غلط نام سے زیر بحث رہتے ہیں) حمد بن جاسم بن جبر سے لیبیا کے حکمران قذافی کی ان دونوں شیوخ سے ٹیلی فون پر بات چیت کا تذکرہ کر چکے ہیں جس میں دونوں میں اتفاق موجود تھا کہ سعودی جغرافیہ کو توڑ دینے اور آل سعود سے حکمرانی چھین لینے کے لئے دونوں حکومتیں بھرپور جدوجہد کریں گی۔ الجزیرہ اس ”قذافی۔ الشیخ حمد فکری سعودی دشمنی“ کا دو ٹوک عنوان ہے۔ ذرا غور کریں جنرل مشرف کے زمانے میں جب بھی صدر بش کو الیکشن درپیش ہوتا اچانک شیخ اسامہ کا ریکارڈ شدہ پیغام پراسرار طور پر الجزیرہ تک پہنچ جاتا اور نشر ہو جاتا۔ شیخ اسامہ کے جتنے بھی پیغامات الجزیرہ کے ذریعے نشر ہوئے عموماً ان کا فائدہ امریکیوں اور یورپیوں کو ہوا جبکہ مسلمانوں پر آلام و مصائب کے پہاڑ جو ٹوٹے وہ اسامہ ‘ ایمن الظواہری‘ القائدہ کے سبب ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی القاعدہ سے وابستہ افراد کرتے رہے اور پاکستان توڑنے میں مصروف رہے ہیں۔ امارات سفارخانہ میں ناظم الامور عبدالعزیز النیان نے مجھے بتایا کہ لیبیا اور صحرائے سینا میں جو خوارج بغاوت یا النصرہ جو تحریر الشام ہے۔ اس کی مالی مدد قطر کی طرف ہوتی رہی ہے۔
قطر ”محاصرے“ کے بعد خوارج کو یہ مالی مدد بند ہو رہی ہے۔ یاد رہے قذافی کے بیٹے سیف قذافی کی رہائی اور منظر عام پر لانے میں اماراتی و سعودی کوششیں کامیاب رہی ہیں۔ ہمارے وہ دانشور اور ابلاغیات نابغہ جو الجزیرہ کی بندش کے سعودی و مصری و بحرینی و اماراتی مطالبے کو ناجائز کہہ رہے ہیں وہ مشرق وسطیٰ کی صدیوں پر محیط قبائلی اقدار و روایات اور اموی و عباسی خلافت کے دائمی اثرات سے آگاہ نہیں ہیں۔ ایران میں جو صفوی مسلکی حکومت تھی وہ بھی ملوکیت تھی اور جو ترک عثمانی خلافت تھی وہ بھی ملوکیت تھی سنی عربوں سے ایرانی نفرت کو سمجھنا ہو تو یہ دیکھیں کہ صفوی مسلکی ایرانی ملوکیت نے سنی ترک عثمانی خلافت سے یورپی کلیسیا و حکمرانوں سے مفاہمت کے بعد دشمنی کا راستہ اپنایا تھا۔ افغانستان اور بلوچستان میں جو ایران دشمنی ہے وہ صفوی ایمپائر کے معصوم سنی مسلمانوں پر قتل و غارت مسلط کرنے کا شدید ردعمل ہے جو صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی شدت سے موجود ہے۔ ایرانی انقلاب نے اس تاریخی نفرت کو بحال کیا ہے۔ ایرانی بلوچستان میں رضا شاہ پہلوی نے سنی عوام کو کچھ آزادی دی تھی مگر 1979ءکے انقلاب نے وہ ثقافتی آزادی بھی چھین لی ہے۔ مجھے عبدالعزیز النیان نے بتایا کہ سعودیہ و امارات بھارتی مسلمانوں کے مفادات کی خاطر بھارتی حکومت سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں اور خاموش سفارتی انداز میں بھارتی مسلمانوں کے حق میں بات کرتے ہیں۔ مہاتیر محمد نے دورہ پاکستان کے دوران اپنی حکومت کے تجربات کی روشنی میں لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست اور حکومت کو درکار استحکام کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ میڈیا کو مکمل آزادی نہ دی جائے ورنہ وہ ریاست اور حکومت کو غیر مستحکم کر کے دشمن سازش کا نادانی میں بھی ساتھی بن جاتا ہے۔ کیا طیب اردوان نے بغاوت سے پہلے اور بعد ترک میڈیا پر سخت ترین پابندیاں نافذ نہیں کیں ؟ ”اردوان کی طرح ہی اگر امارات ‘ بحرین‘ سعودیہ میڈیا کو مادر پدر آزادی نہ دیں تو ہم ان عرب حکومتوں کو انسانی و سیاسی حقوق کا قاتل ثابت کیوں کرتے رہتے ہیں ؟
جنرل عبدالفتاح السیسی اتنا ہی سعودی دوست ہے جتنا ماضی میں جنرل ناصر سعودی دشمن تھا۔ یہ سب کچھ سعودی دانش و تدبر نے ممکن بنایا ہے۔ ناصر‘ قذافی والے منصوبے اب قطر ‘القائدہ و داعش اور ایران خلیجی ریاستوں اور سعودیہ کے لئے رکھتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ناصر کی ٹیم میں انور سادات اخوانی تھے اسی طرح جنرل السیسی با ضابطہ اخوانی تھے۔ آخر ذہنی طور پر اخوانی جنرل اخوان المسلمین کے مخالف کیوں ہوتے رہے ہیں؟
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024