"بنام وزیراعلیٰ" کالم میں نہ اتنی تعریف تھی کہ قارئین کے شکوے بھرے فون آتے نہ حد سے بڑھی ہوئی تنقید ۔ جو کام واقعی عملاً افادیت ثابت کر پائے اُن پر چند ستائشی حروف لکھ ڈالے۔ ساتھ میں مذکور تھا کہ بالآخر آخری منزل "قبر" ہے ۔ شاہ ہو یا گدا، سبھی نے ایک ہی طریق پر" سپردِ مٹی" ہونا ہے۔ بے شمار قارئین نے کالم کا نام" حکمرانوں "کے نام پر بدلنے کا مشورہ دے ڈالا۔
اب اُن کے نام پرتو کالم رکھنے سے رہے ۔ہاں البتہ کچھ عرصہ سے چُھبن تھی کہ" لفظوں کی پھوار" کِس طرح ؟پھوار کا ہے کی ۔ پھوار تو نرم و نازک پانی کے قطرے کہلاتے ہیں ۔ ایسی آبشار جو ملائم ۔ لطیف انداز میں برستی ہے کہ گھنٹوں حصار میں رہنے کے باوجود گھبراہٹ۔ تنگی کا۔ زخمی ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ ہمارے کالمز کا متن تو 90" ڈگری "متضاد تھا۔ 2002ء سے عسکری دور کی کھٹنائیوں کی پرواہ کی۔ نہ حساس سرکاری ملازمت آڑے آئی ۔ جو محسوس کیا ۔ لفظوں میں ڈھال دیا ۔ جو دیکھا ، صفحات پر رقم کر کے قارئین کے سپرد کر دیا ۔ سچ غالب رہا اور "سرکار" کی خوشنودی ۔ طلب کِسی بھی مرحلہ پر آزمائش نہیںبنی ۔ آرام و آسائش والی زندگی گزارتے برسوں گزار دئیے مگر آسائشات کِسی بھی موڑ ۔ مرحلے پر ضمیر فروشی پر آمادہ نہ کر پائیں ۔ بے پناہ مواقع ملے ۔ آفرز تھیں کہ فلاں کو جوائن کر لیں مگر جو رشتہ بچپن میں "نوائے وقت "سے جڑا تھا ۔ وہ اب بھی قائم ہے ۔ آبروٗے صحافت" قبلہ انکل مجید نظامی "سے دلی عقیدت اب بھی اُسی سطح پر ہے جو روزِ اول سے تھی ۔ آج جتنے بھی نامور لکھنے والے ہیں ۔ اکثریت کا ابتدائی زمانہ" نوائے وقت" تھا ۔ بہت سے شہرت ملنے پر مزید پانے کے شوق میں چھوڑ گئے ۔ "نوائے وقت "نے نو آموز لکھاریوں کو چھاپنے ۔ آگے بڑھنے کا موقع دیا ۔ قارئیں کے سامنے لفظوں کی صورت بولنے کی سہولت فراہم کی ۔ سچ لکھنا۔ سچ بولنا اِسی کا طُرہ امتیاز ہے ۔ سو سوچا کہ" نام" تبدیل کر دوں ۔ حق کی آواز بلند کرنا مقصدِ زندگی ہے تو معاہدہ بھی حق کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ایسی آواز جو دباوٗ ۔ طمع سے مُبرا ہو ۔ دبنگ الفاظ کے ساتھ سچ کو منظر عام پر لائے۔"میثاق" اس قدر دلنشین نام ۔ خوبصورت معنویت لیے ہوئے ۔ "میثاق مدینہ" ۔ "میثاق لکھنو"۔ میثاق جمہوریت کے بعد میثاق معیشت کی حکومتی تجویز پر اپوزیشن نے صاد کر دیا ۔
"میثاق حق" ایسا معاہدہ کہ" اللہ تعالی کریم" سے ملتمس ہوں کہ حیات کے کسی بھی مرحلے پر قلم ڈگمگائے نہ پاوٗں استقامت پر چلناترک کریں ۔ ہر وہ آواز جو عوام کی بہبود۔ بھلائی واسطے اُٹھے اُس کا ساتھ دینا ہے ۔ ہر وہ مسئلہ جو عوام کی زندگیوں کو دشوار بنا رہا ہو ۔ اُس کو نہ صرف اُجاگر کرنا بلکہ حل کروانا ہے ۔ کالمز گواہ ہیں لکھنے کا اکثریتی وقت متذکرہ بالا مسائل پر صرف ہوا۔ بہت سارے کالمز پر نوٹس لیے گئے ۔ مسائل حل ہوئے مگر زیادہ تر کو اپنی تعریف کی شائع کردہ ٹوکری میں ڈالنے سے گریز کیا ۔ اجتماعیت انفرادی کاوشوں کو عروج بخشتی ہے ۔
11 مئی2013کے الیکشن کے یونہی ابتدائی نتائج موصول ہونا شروع ہوئے ۔ اکثریتی" برقی چینلز" کے" اینکر پرسنز "کا جوش و خروش لائق دیدنی تھا ۔ لگتا تھاسبھی اُنھی نتائج کے خواہاں تھے ۔ پھر جوں جوں نتائج آتے گئے ۔ بڑے بڑے "پھنیِ خاں "زمین بوس ہوتے گئے ۔ دانشوری کے خود ساختہ دیو قامت پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے ۔ صبح تک رویہ ۔ باڈی لینگویج ہی بدل چکی تھی ۔ نہیں بدلی تو وہی فرسودہ ذہنی روش کہ
دیکھا میں نے یہ کہا تھا ۔ اب یہ ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔ نتائج کے بعد پورا ہفتہ یہی کچھ سننے اور پڑھنے کو ملا ۔ بہت کم ۔ کافی ظرف والوں نے اعتراف شکست کیا ۔ اکثریت نے پُرانے "چھپے ہوئے تجزیوں" کو ہی "قارئین "کے حلق میں دوبارہ ٹھونسنے کی مشق دُہرادی ۔ میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ
اگر کِسی کا سیاسی تجزیہ یا سماجی پیشگوئی کِسی وقت درست ثابت ہو جاتی ہے تو اِس کا کریڈٹ اُس اخبار یا "برقی چینل" کو جاتا ہے جس نے ایسے "لوگوں" کو چھپنے کے مواقع فراہم کیے ۔ جو بات۔ کام بھی آرام ۔ دھیرے سے کیا جائے ۔ اُس کا سنبھالنا آسان ہوتا ہے ۔ "یا اللہ تعالیٰ ۔ رب کعبہ" مجھے وہ سچ عطا فرما ۔ جو کِسی کی خوشنودی ۔ ناراضگی کا محتاج نہ ہو ۔ آمین
سب کچھ پڑھ ۔ سُن کر کچھ دنوں ہمار بھی دل چاہا کہ کچھ پُرانی (مطلبوعہ نوائے وقت ) تحریروں۔ تجزیوں کی سچائی اِس خوشی کے ساتھ سامنے لاوٗں کہ یہ میرا نہیں" نوائے وقت" کا اعزاز ہے جس میں تجزیات شائع ہوئے اور کبھی اعترافِ شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ سب سچائی تازہ بہ تازہ سے پچھلی تواریخ تک قارئین" ٹوئیٹر + فیس بک" پر دیکھ ۔ پرکھ سکتے ہیں اور اِن سب کا کریڈٹ بلاشبہ" محافظِ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی" کو جاتا ہے ۔
"نوائے وقت "صرف ایک اخبار کا نام نہیں ۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم اُس یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان کی سلامتی ۔ نظریاتی استحکام ۔ وقار کے عروج کے لیے برسر عمل ہے ۔بلکہ ڈٹ کر کھڑی ہے ۔ نظریاتی سرحدوں کی محافظت کا فریضہ انتہائی خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہی ہے ۔
"اللہ تعالی ذی شان" سے دُعا گو ہیں کہ" قبلہ مجید نظامی" کی جانشین" محترمہ رمیزہ نظامی "جس جوش ۔ جذبہ سے "ادارے" کا نام بڑھا رہی ہیں ۔ مزید ترقی ۔ روشن نام ہمارے" ادارے" کا بلند ہو ۔ آمین
نظریہ پاکستان ہماری بقا ۔ سالمیت کا ضامن ہے ۔ ہم سب کو تمام تر دباوٗ ۔ ترغیب ۔ طمع ۔ مصلحتوں سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہیے ۔ اِسی" یونیورسٹی" سے فارغ التحصیل۔ کل تک نوآموز رپورٹرز ۔ صحافی آج سکہ بند ۔ نامور صحافی ۔ انیکر پرسن کے سنگھاسن پر فائز ہیں ۔ سازشی ذہن اور الزام تراشی کے آگے چٹان مانند ڈٹ کر مجاہدانہ کردار ادا کرنے والے "اخبار" کو پہلے سے زیادہ حق گوئی ۔ سچائی ۔ محافظت کا فریضہ انجام دینے کی ضرورت ہے کیونکہ حالات بیحد مشکل ہیں ۔ اندورنی و بیرونی سازشیں ۔ شورش نقطہ عروج پر ہے تو ایسے میں ہم سب کو اپنے وطن کے ساتھ" میثاق حق" کرلینا چاہیے ۔