پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے عمران خان پر بہت رقیق الزامات عائد کئے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سیاست میں الزام تراشی کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ اب تو ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔ عمران خان نے بھی کسی کو نہیں بخشا۔ خصوصی طور پر میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کو جس تسلسل اور تواتر کے ساتھ عمران خان نے ہدف تنقید بنایا ہے اور شریف فیملی پر جیسے جیسے الزامات لگائے ہیں۔ ان کی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو عدالتِ عظمیٰ کے پانچ ججوں نے باسٹھ، تریسٹھ کے تحت نااہل کرنے اور عہدے سے سبکدوش ہونے کا حکم صادر فرمایا، لیکن قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق نے جو درخواست نواز شریف کے خلاف عدالت میں دائر کی تھی۔ اُس کی بنیاد پانامہ پیپرز پر تھی۔ اور جے آئی ٹی کی رپورٹ میں یہ واضح طور پر لکھا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف پر کرپشن اور عہدے کے غلط الزامات ثابت نہیں ہو سکے اور فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی ہی میں ہونا تھا لیکن (نہ جانے کیوں) بہ امرِ ”مجبوری“ باسٹھ، تریسٹھ کا سہارا لیا گیا اور اُس تنخواہ کو بنیاد بنا کر میاں نواز شریف کو چلتا کیا، جو انہوں نے وصول بھی نہیں کی۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کی ستر (70) سالہ تاریخ میں کسی سویلین وزیراعظم پانچ سال پورے نہیں کئے جبکہ آمریت کا ہر دور کم از کم دس سال پر محیط ہے۔
پرویز مشرف نے ابھی دو دن پہلے بیان دیا ہے کہ ”سویلین حکومت میں ملک ترقی نہیں کرتا بلکہ آمریت میں ترقی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ”آئین مقدم ہے لیکن عوام آئین سے بھی زیادہ مقدم ہے“۔ اب بندہ پرویز مشرف سے پوچھے کہ اُن کے آمرانہ دور میں ملک نے کیا ترقی کی؟ کوئی ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ بتا دیں جو اُن کے دور میں مکمل ہوا ہو؟ الٹا پاکستان کی سرزمین امریکی فوج کے حوالے کی گئی جہاں سے وہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجاتی رہی۔ ڈرون حملوں میں ہمارے ہزاروں بے گناہ لوگ جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے، مارے گئے۔ پورا ملک ان کے دور میں خودکش بم دھماکوں سے لرزتا رہا۔ کوئی مسجد‘ کوئی امام بارگاہ‘ کوئی درگاہ‘ ان خودکش بم بارود سے نہیں بچی اور نہ ان کی حکومت بچی۔ نوازشریف کے گذشتہ چار سال کا اگر جائزہ لیا جائے تو بے شمار ترقیاتی پروگرام نہ صرف شروع ہوئے بلکہ پایہ تکمیل کو بھی پہنچے۔ چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں کی اور سی پیک منصوبہ اور گوادر پورٹ جیسے عالمی نوعیت کے میگا پراجیکٹ شروع ہوئے جن پر دن رات کام ہو رہا ہے۔ ہر شہر‘ ہر گا¶ں‘ ہر قبضے میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے جسے عرف عام میں ترقی کا انفراسٹرکچر کہتے ہیں۔ نوازشریف نے پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نجات دلوائی اور خود آزادانہ فیصلے کئے۔
بات ہو رہی تھی عائشہ گلالئی کی۔ اس نے عمران پر جونہی الزامات لگائے‘ عمران اینڈ پارٹی نے بغیر سوچے سمجھے اسے نوازشریف کی شرارت قرار دے دیا۔ انہیں عائشہ گلالئی کا یہ بیان بھی پڑھنا چاہئے تھا جس میں کہ ”میں مسلم لیگ (ن) میں نہیں جا رہی وہ کرپٹ جماعت ہے‘ البتہ پی پی میں جا سکتی ہوں“۔ اگر یہ نوازشریف کی حرکت ہوتی تو عائشہ گلالئی سیدھی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کر دیتی اور مسلم لیگ (ن) کو کرپٹ جماعت نہ کہتی۔ بہرکیف عائشہ گلالئی کے زبانی الزامات کی کوئی وقعت نہیں۔ اگر ان کے پاس عمران خان کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں تو وہ عدالت میں جائیں اور عمران پر نااہلی کا مقدمہ دائر کر ائیں۔ جب تک عدالت سے کوئی فیصلہ نہیں آتا‘ عائشہ گلالئی کے الزامات پر ”آمنا صدقنا“ نہیں کہا جا سکتا۔
ایک بات جس نے ہر حساس اور محب وطن شخص کو پریشان کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ عمران کے رویئے اور انداز گفتگو کی وجہ سے ہماری قوم میں عدم برداشت‘ گالم گلوچ‘ بدلحاظی اور بدتہذیبی انتہائی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ نوجوان طبقہ اپنے سے بڑوں کو گالی دینے میں یا ان سے گستاخی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہا۔ ہم تو پہلے ہی مختلف مذہبی فرقوں‘ صوبائی و لسانی تعصبات اور ذات پات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اس پر مستزاد اب ہم سیاسی پارٹیوں کے مزید مائیکرو گروپس میں بٹتے جا رہے ہیں۔ یہ عدم برداشت کہیں ہمیں خانہ جنگی کی طرف نہ لے جائے کیونکہ دشمن تو چاہتے ہی یہی ہیں۔ قوم بکھر جائے اور ہم اس پر قبضہ کریں۔ ہمیں من حیث القوم سندھی‘ بلوچی‘ پنجابی‘ پٹھان‘ سنی‘ شیعہ‘ دیوبندی اور مسلم لیگی اور انصافیے کہلانے کی بجائے صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی بن کر رہنا چاہئے تاکہ قوم کا شیرازہ نہ بکھر کر رہ جائے۔ ہر بندہ دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالے ورنہ ہم بہت بڑی تباہی سے دوچار ہو جائیں گے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024