زندگی اﷲ تعالی کی دی ہوئی ایک نعمت ہے اور یہ نعمت اس وقت اور بھی حسین لگتی ہے جب آپکے اپنے آپکے پیارے آپکے ساتھ ہوں لیکن اگر اچانک آپ سے محبت کرنیوالے آپ سے بچھڑ جائیں یا آپ سے دور کر دئیے جائیں تو گھر والوں پہ کیسی قیامت گزرتی ہے یہ کبھی ان لاپتہ افراد کے خاندانوں سے جا کر کوئی پوچھے جن کیلئے ہر دن ایک نئی اذیت لیکر آتا ہے ۔ آس و نراس کا یہ کرب انہیں نہ جینے دیتا ہے اور نہ مرنے ۔ جو لوگ دنیا چھوڑ کے چلے جاتے ہیں ان پہ تو رو دھو کے انسان کسی نہ کسی طرح مالک کی رضا اور امانت سمجھ کے دل کو مطمئن کر ہی لیتا ہے، لیکن جن کے بارے میں یہ تک نہ پتہ ہو کہ وہ آیا اس دنیا میں ہیں بھی یا نہیں یا کس حال میں ہیں انکے گھر والے کس اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں اس کا احوال ان مظلوم خاندانوں کو ہی پتہ ہے جن کو زندگی کسی صورت چین نہیں لینے دیتی ۔ امید و مایوسی کا سفر کتنا تکلیف دیتا ہے اس کا اندازہ صرف اسی کو ہوتا ہے جو اس کرب سے گزر رہا ہو ۔ صدر پرویز مشرف کے دو ر حکومت میں جب 9/11 کا واقعہ ہوا جس نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور پاکستان نے امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی کی عالمی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننا قبول کیا اس دور میں لاپتہ افراد کا معاملہ شروع ہوا جو کہ پندرہ سال گزر جانے کے باوجود آج تک حل نہیں ہو سکا ۔ کسی شخص کو کسی بھی جرم کے شبے میں اٹھا لینا اور پھر بغیر فرد جرم عائد کئے ، کسی عدالت کے سامنے پیش کئے ، گھر والوں کو اس بارے میں لا علم رکھنا انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے ۔پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں ہمارا آئین ، قانون سب اﷲ تعالی کے احکامات کے تابع ہیں اور ہمارا مذہب اسلام تو گنہگار کو بھی اپنی صفائی میں بولنے کا حق ضرور دیتا ہے ، وہاں اس طرح انسا نی حقوق کی پامالی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ڈیفنس ہیومن رائٹس کے 30 اگست 2015ء تک کے ریکارڈ کیمطابق کل رجسٹرڈ لاپتہ افراد کی تعداد 2215 ہے ۔ جن میں سے پچھلے دس سالوں میں صرف 858 لوگ بازیاب کرائے جا سکے ہیں ۔ 38 لوگ وفات پا چکے ہیں ۔ 110 لوگوں کے بارے میں کھوج لگایا جا چکا ہے اور 1209 لوگ تاحال لاپتہ ہیں ۔ جن میں سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہے ۔ اس صوبے میں لاپتہ افراد کی کل تعداد 781 ہے ۔ جن میں سے 18 وفات پا چکے ہیں ۔ 55 افراد کے بارے میں معلومات مل چکی ہیں ۔ 38 کو بازیاب کرایا جا چکا ہے اور 670 لوگ تا حال لاپتہ ہیں ۔ اسکے بعد دوسرے نمبر پہ پنجاب آتا ہے جہاں لاپتہ افراد کی کل تعداد 526 ہے جن میں سے 15 لوگ وفات پا چکے ہیں ۔ 46 افراد کے بارے میں پتا لگایا جا چکا ہے ۔ 119 لوگ بازیاب ہو چکے ہیں جبکہ ابھی تک لاپتہ افراد کی تعداد 346 ہے ۔ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد باقی دونوں صوبوں کی نسبت کم ہے۔ ان صوبوں میں کل لاپتہ افراد کی تعداد 182 ہے جن میں سے معلومات کے مطابق چار لوگ تین سندھ میں اور ایک بلوچستان میں انتقال کر چکا ہے ۔ 4 افراد کے بارے میں کھوج لگایا جا چکا ہے ۔ 35 لوگ رہا کئے جا چکے ہیں جبکہ 139 لوگ تاحال گمشدہ ہیں ۔ اسی طرح کچھ لاپتہ افراد کا تعلق اسلام آباد اور آزاد کشمیر سے بھی ہے ۔ جن کی کل تعداد 76 ہے ۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اب اس دنیا میں نہیں ہے جبکہ 5 کے بارے میں معلومات حاصل کی جا چکی ہیں ۔ 16 افراد کو رہا کیا جا چکا ہے اور 54 لوگ ابھی تک گمشدہ ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد رجسٹر کیا گیا ہے ابھی بہت سی تعداد ایسے اشخاص پر بھی مشتمل ہے جن کا کہیں اندراج نہیں ہے اور وہ عرصے سے لاپتہ ہیں ۔ گمشدہ افراد کے معاملے کو حکومتی سطح پر باوجود وعدوں کے کبھی زیادہ سنجیدہ نہیں لیا گیا ۔ پاکستان میں پہلی بھر پور آواز اٹھانے والی محترمہ آمنہ جنجوعہ تھیں۔ موجودہ حکومت نے 2015ء میں انکے شوہر مسعود جنجوعہ جو کہ 30 جولائی 2005 کو لاپتہ ہوئے تھے کی رہائی کا وعدہ کیا تھا جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ پاکستان میں اس وقت حالیہ ہونیوالے زیادہ تر سروے جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا گراف سب سے اونچا ہونے کا اعلان کر رہے ہیں ۔انکے بر وقت دانشمندانہ اقدامات کی وجہ سے آپریشن ضرب عضب میں ہماری افواج کو کامیابیاں حاصل ہونا شروع ہوئیں ہیں اور ملک میں دہشتگردی کے حوالے سے حالات میں کافی بہتری آئی ہے لیکن یہ آپریشن لاپتہ افراد کا معاملہ حل کئے بغیر سو فی صد کامیابی سے اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکتا۔ دہشتگرد لاپتہ افراد کا حوالہ دیکر، انہیں معصوم ظاہر کر کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں اور پھر معصوم لوگوں کی برین واشنگ کر کے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں اور ایسے میں اگر لاپتہ ہونیوالے واقعی معصوم ہوں تو اس سے دہشتگردوں کے ہاتھ اور مضبوط ہوتے ہیں ۔ ہماری افواج اس ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے دن رات مختلف محاذوں پہ لڑ رہی ہیں اور ہمارے جوانوں کا لہو ، انکی قربانیاں اس وطن کیلئے امن کا پیغام لیکر آ رہی ہیں ۔ ان کی کامیابیاں ہمیں آنے والے اچھے کل کی نوید سنا رہی ہیں ۔ چنانچہ ایسے میں فوج کے اپنے وقار کیلئے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ ان معاملات کو حل کیا جائے تاکہ کوئی انکے کردار پہ انگلیاں نہ اٹھا سکے۔ میری ان تمام مقتدر اداروں سے پرزور اپیل ہے کہ مائوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے جن کی آنکھیں اپنے بیٹوں کے انتظار میں پتھرا گئی ہیں ، وہ سہاگنیں جو اپنے سہاگ کے ہوتے ہوئے بھی بیواوٗں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، بیٹیاں جو باپ کی شفقت سے محروم بچپن سے جوانی کی دہلیز پہ پہنچ گئی ہیں اور بہنیں جو بھائیوں کی آج بھی راہ تک رہی ہیں کہ شاید کسی دن وہ لوٹ آئیں ان پہ رحم کریں‘ انکو عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔ میری تمام فیصلہ ساز اداروں سے اپیل ہے کہ مسعود جنجوعہ صاحب جو کہ لاپتہ افراد کی علامت بن چکے ہیں اور بے گناہ بھی ثابت ہو چکے ہیں ان کو فورا رہا کر کے اس مسئلے کے حل کی طرف قدم بڑھایا جائے ، اب وقت آ گیا ہے کہ جہاں امن عامہ کے حوالے سے بہتری پیدا ہو رہی ہے وہیں گمشدہ افراد جیسے مسائل کو بھی فورا حل کیا جائے اور ما ضی کے زخموں پر مرہم رکھ کے ایک روشن صبح کی ابتدا کی جائے ۔اور بقول شاعر…ع
ابھی لوٹ آ میرے گمشدہ …
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024