جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم پر کرپشن، عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت /صباح نیوز)سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ وزیر اعظم کو علم تھا کہ اسمبلی فلورپرکیا کہہ رہے ہیں؟عدالت کو ان سوالات کے جوابات نہیں دیئے جارہے جو وہ مانگ رہی ہے اصل سوال یہ ہے لندن فلیٹس کا پیسہ کہاں سے آیا کس نے دیا، وزیراعظم نے کہا تھا منی ٹریل دیں گے لیکن ابھی تک جواب نہیں دیا گیا،سعودی عرب، دبئی اور لندن جائیدادوں کے فنڈز کہاں سے آئے، اس بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہوجائے،جے آئی ٹی کی جلد نمبر چار میں موجود دستاویزات خطرناک ہیں۔ بدھ کوسپریم کورٹ میں جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میںجسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پاناما عملدر آمد کیس کی سماعت کی۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کا جے آئی ٹی رپورٹ پر دلائل میں کہنا تھا کل میں نے وزیراعظم کا جے آئی ٹی میں بیان پڑھ کر سنایا تھا۔ جے آئی ٹی کو وزیراعظم نے اپنے اثاثوں کی تفصیل پیش کی، جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثوں سے متعلق سوال نہیں کیا، جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا توسوال ضرور کرتی، وزیراعظم کے رشتہ داروں نے کوئی جائیدادنہیں چھپائی جبکہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے۔خواجہ حارث نے کہا نیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں اس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، وزیر اعظم نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے ہیں اور انہوں نے کوئی اثاثہ نہیں چھپایا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ کسی منسلک شخص کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے والا ملزم نہیں ہو سکتا اور انہوں نے دلائل کے دوران نیب سیکشن کی شق (اے)کا حوالہ دیا جس پرجسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے۔ قانون میں اس شخص کا بھی ذکرہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہواوراثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔جسٹس عظمت سعید نے مزید اپنے ریمارکس میں کہا کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی دوسرے کے گھرمیں کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا، زیراستعمال ہونا اوربات ہے، اثاثہ سے فائدہ اٹھاناالگ بات ہے۔ آپ کے مطابق کسی کے گھررہنے والے پرنیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، مہینوں سے سن رہے ہیں، فلیٹ کی ملکیت کے علاوہ ساری چیزیں واضح ہیں۔ اس کیس میں سوال 1993 سے اثاثے زیراستعمال ہونے کاہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے، اثاثہ وزیر اعظم کے نام نہیں۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی گئی، قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے بے نامی اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں۔ لندن فلیٹ کے مالک کا نام سامنے آچکا ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خود کسی بھی پراپرٹی کے مالک ہیں۔خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا ، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے نام اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ غلطی کہیں یا کوتاہی، نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیداد کا کوئی ذکرنہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا کہ حدیبیہ کیس سے متعلق آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا تھا، آپ اپنے دلائل دوہرا رہے ہیں جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پرانے معاملات ختم ہو چکے، اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں لگائے گئے، لندن فلیٹس کے بارے میں جے آئی ٹی نے نہیں کہا کہ اصل مالک وزیر اعظم ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے بے نامی دار کی تعریف لکھتے وقت قانون میں غلطی ہو گئی ہے ۔بے نامی دارکی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر سے انکار نہیں کر رہا، وزیر اعظم کا ذاتی طور پر ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں، خاندان کے دوسرے افراد کی طرح جو معلومات تھیں وہ شیئر کیں۔ جے آئی ٹی نے کہا فلیٹ پورے خاندان کے ہیں، التوفیق کیس میں شریف فیملی کے ممبر شیئرہولڈر تھے، اسی کیس میں شریف فیملی کے ممبر شیئرہولڈر تھے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ پیپر ملز کے مالکان میں مریم نواز بھی شامل ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کمپنی کے حصص کا فیصلہ میاں شریف کرتے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کب لیے اور کس نے ادائیگی کی، منی ٹریل کہاں ہے، جواب نہیں دیا جارہا، فنڈز سعودی عرب، دبئی یاقطر میں تھے، کہاں سے پیدا ہوکر لندن پہنچے۔ وزیر اعظم نے کہا انکے پاس تمام دستاویزات میں منی ٹریل موجود ہے، عدالت کوان سوالوں کے جواب نہیں دیئے جا رہے۔خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ عام فیملی ممبرکے طور پر اسمبلی میں بیان دیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کو علم تھا کہ اسمبلی فلورپرکیا کہہ رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے تعلق ہو تو وہ جواب دہ ہو سکتے ہیں، 1993-95تک بچے اپنے والد کے زیر کفالت تھے، فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف دیکھتے تھے، خاندان کے سربراہ میاں شریف کا سرمایہ کاری کا فیصلہ تھا، یہ جائیداد لندن عدالت میں کیس کے ساتھ منسلک تھی، اس کیس میں میاں شریف، شہباز اور عباس شریف کے نام ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ شریف خاندان کا موقف ہے کہ جائیداد 2006میں حاصل کی گئی، کیا حسن اور حسین نے لندن کی جائیداد نواز شریف کے کہنے پر لی، اصل سوال ہے کہ سعودی عرب، دبئی اور لندن جائیدادوں کے فنڈز کہاں آئے، اس بنیادی سوال کا جواب نہیں مل رہا۔خواجہ حارث نے کہا کہ جو بیان میں نے پڑھا اس میں قطری سرمائے سے جائیداد خریدنے کا بتایا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں اسکا ذکر نہیں کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ تھا کہ پراپرٹی کب خریدی گئی، فنڈزکہاں سے آئے اورکہاں گئے، وزیراعظم نے کہا تھا منی ٹریل دیں گے لیکن ابھی تک جواب نہیں دیا گیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے کسی نے پراپرٹی خریدی،بے نامی کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے نام پراپرٹی رکھنا۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جلد نمبر 4پرکچھ بات کروں گا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ والیم چارکے حوالہ سے محتاط رہیں، اس میں بہت خطرناک دستاویز ہیں، اس میں ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی ہے اور کچھ نتائج بھی اخذ کیے گئے ہیں۔وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا سیٹلمنٹ ہوئی تھی پرتفصیلات کا علم نہیں، لندن فلیٹ سے وزیر اعظم کو جوڑنے کی جو بات تھی وہ قیاس آرائی پرمبنی ہے، کوئی شواہد کوئی دستاویز نہیں ، دوسرے فریق سے منسوب کرنا بھی قابل اعتراض ہے لیکن ابھی میں اس پر اعتراض نہیں اٹھا رہا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے کہا فلیٹس مشترکہ طور پر شریف فیملی رکھتی ہے، اگرجے آئی ٹی کی رائے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں تو اس کاوزن بھی نہیں ہو گا، جے آئی ٹی کو چھوڑیں ہمیں دستاویز دکھائیں، اگر حسن، حسین کے پاس فلیٹس کسی کے نام پر ہیں تو وہ کون ہے، حسین نے خود کو فلیٹ کا مالک کہا لیکن دستاویز نہیں دی، نیلسن، نیسکول، منروا کا مالک بھی خود کو بتایا لیکن دستاویز نہیں دی، منروا کی دستاویز پر مریم کو مالک کہا گیا ہے۔ دیکھنایہ ہے کہ کیس کا فیصلہ ہم نے کرنا یا ٹرائل کورٹ نے لیکن اگر شواہد غیر متنازعہ ہوئے تو ہم فیصلہ کرسکتے ہیں۔ جسٹس عظمت شیخ نے کہا پوچھ پوچھ کر تھک گئے ہیں کوئی نہیں بتاتا لندن فلیٹس کا مالک کون ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت کوئی شارٹ کٹ نہیں دے سکتی۔ شواہد پر مبنی سماعت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا یہ لازمی نہیں جے آئی ٹی کی فائنڈنگ درست ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ بحث کے لیے مانتے ہیں فلیٹس میاں شریف کے ہیں، وفات کے بعد ان میں وزیر اعظم کا بھی شیئرہوگا، وزیراعظم ہو یا حسین نواز، دونوں زبانی کہہ رہے ہیں، فلیٹس کی ملکیت چھپانے کیلئے تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں قائم کی گئیں، کمپنیوں، اثاثوں کی ملکیت اور فنڈز واضح نہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آف شور کمپنیاں دوسری کمپنیوں سے سروسز لے رہی ہیں، یہ سروسز کس کو دی جا رہی ہیں معلوم نہیں، نام کس کے ہیں، پیسے کس نے دیئے کوئی بتا ہی نہیں رہا، کاغذ کوئی دکھا ہی نہیں رہا، یہ توہے کہ 88فیصد منافع وزیر اعظم کو دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک ارب 17 کروڑ روپے وزیراعظم کودئیے گئے۔خواجہ حارث نے کہا کہ ہل میٹل حسین نواز کی کمپنی ہے جو کہ خود مختار ہے، حسین نوازنے اپنے والد کو پیسے بھیجے جس پرجسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ساری چیزیں ہیں آنکھیں بند نہیں کریں گے۔وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے خلاف کچھ نہیں، ادب سے گزارش ہے کہ فیصلہ میں احتیاط برتی جائے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ دیکھناہے کیس میں کوئی شواہد ہیں جو وزیراعظم کو معاملہ سے منسلک کرتے ہیں یا ہم نے فیصلہ کرنا ہے یا ٹرائل کورٹ کوبھجوانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عدالت کے پاس فیصلہ کا اختیارہے، آپ کو تمام پتے شو کروانا چاہئیں تھے۔سماعت کے دوران وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ کچھ ریکارڈ دبئی، ابو ظہبی سے حاصل کیا جا رہا ہے جس پر عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ عدالت نے کیس سنا۔ جے آئی ٹی میں ریکارڈ دینا تھا ،آپ اب حاصل کر رہے ہیں جس پر سلیمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے کہا مشینری دبئی سے جدہ جانے کا ریکارڈ نہیں ملا، 27سال پرانا ریکارڈ ہے جس کو سرکاری اداروں سے حاصل کرنا ہے یہ اسے عدالت میں جمع کرادیں گے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقت طلب کرنے کے حوالہ سے فریقین کا ریکارڈ اچھا نہیں، پہلے بھی مہلت طلب کی گئی تھی قطری خط پیش کردیا گیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کمپنیوں کے مالک کے حوالہ سے کچھ ریکارڈ دوں گا ۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو عدالت کا اختیار نہیں سونپا تھا، کسی بھی تفتیشی ادارے کی تحقیقات کو ٹرائل سے گزرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیراعظم پر کرپشن اور عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا وضاحت کے لیے یہ فورم نہیں اگرجے آئی ٹی نے تمام امور سے اسحاق ڈار کو جوڑا ہے تو ٹرائل کورٹ میں جواب دیں۔وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے وکیل طارق حسن نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے، میں جے آئی ٹی کا بروقت رپورٹ دینے پرمعترف ہوں لیکن اسحاق ڈار سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ درست حقائق پرمبنی نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے جو کیا ہے اس پر ٹرائل ہونا ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف شواہد آپ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں گے۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا آپ نے کیس پر محنت کی لیکن توقع ہے کہ آپ مختصر بیان کریں، جس پر طارق حسن نے کہا کہ میرا حق ہے کہ اپنے الزامات کا دفاع کروں۔ اسحاق ڈار گزشتہ 34سال سے ٹیکس ریٹرنز دے رہے ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی ایسا الزام ہے کہ آپ ٹیکس ریٹرن نہیں دیتے جس پرطارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ اسحاق ڈارنے 1981 سے 2001تک ٹیکس ریٹرن نہیں دیئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ بتائیں کہ یہ الزام عمران خان کی درخواست پر ہے، عمران خان کی درخواست میں آپ پر کیا الزام ہے جس پر وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان نے مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کی درخواست میں آپ پر بھی سنگین الزام ہیں۔وکیل طارق حسن نے کہا کہ 2008 اور2009 میں اثاثوں میں اضافے کے الزامات بھی لگائے گئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایف بی آر نے آپ کا ٹیکس ریکارڈ جے آئی ٹی کو دیا، یہ حقیقت ہے کہ ایف بھی آر نے جے آئی ٹی کو اس دورانیہ کا ٹیکس ریٹرن ریکارڈ نہیں دیا۔وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اپنا اور اہلیہ کا 1995 سے 2017 تک کاریکارڈ جمع کروایا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اب کوئی خط و کتابت بنا کر نہ لے آیئے گا، جے آئی ٹی کے مواد پر فیصلہ کریں گے، یہ واضح رکھیں جس پر طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو بروقت تمام ریکارڈ فراہم کردیا تھا، دستاویزات رات آٹھ بجے نیب سے لے کر دیئے تھے، جے آئی ٹی نے تعریف پر مبنی خط بھی دیا تھا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے نے ریمارکس دیئے کہ دو دن پہلے ریکارڈ دینے پر تعریف کیسے ہوگئی، اگرریکارڈ نیب نے واپس کیا تو ریکوری میمو ضرور بنایا ہو گا۔ نیب نے اصل ریکارڈ دیا یا فوٹو کاپی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب سے ریکارڈ لے کر ایف بی آر کو دیا گیا تھا۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین ایف بی آر نے کہا تھا 95 فیصد ریکارڈ فراہم کر دیا ہے، کیا نیب نے تسلیم کیا کہ دستاویزات انہوں نے دیں، کوئی خط و کتابت ہے تو سامنے لائیں، ایف بی آر نے پہلے کہا کہ ریکارڈ ٹریس نہیں ہو رہا، اچانک ریکارڈ ملا اور نیب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ کیا آپ نے ریکارڈ اعتراضات کے ساتھ جمع کرایا ، عدالت کو تو کم ازکم ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے تھا، عدالت کو صرف آڈٹ رپورٹس دی گئیں۔طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اسحاق ڈارکو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسحاق ڈار کا کنکشن آپ کو میں بتا دیتا ہوں، گلف سٹیل مل میں اسحاق ڈار کے بیٹے کے نام ٹرانزیکشنز ہیں، ہل مٹیل کمپنی کے ساتھ اسحاق ڈار کا کنکشن موجود ہے، اسحاق ڈار نے بیان حلفی کے ساتھ معافی مانگی، بیان حلفی کے ذریعے کئی ٹرانزیکشنز کا علم ہوا، اگر منصفانہ ٹرائل کی جانب گیا تو آپ کو پورا موقع ملے گا، ٹرائل میں اپنا موقف آپ درست ثابت کر سکتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہا اسحاق ڈار ملزم تھے اور مبینہ طورپراعترافی بیان دیا، مبینہ اعترافی بیان کی بنیاد پر اسحاق ڈار کو معافی ملی جس پر طارق حسن نے کہا کہ اعترافی بیان دوران حراست لیا گیا تھا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار بعد میں مبینہ اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے جب ریفرنس خارج ہوا تب اسحاق ڈار نہ فریق تھے نہ ملزم۔طارق حسن نے کہا کہ وہ معاملہ ختم ہو چکا، دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا، اس نکتے پر میری تیاری بھی نہیں ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ملزم نہیں ہیں آپ ماضی کی ٹرانزیکشن پر گواہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی کے لیے عدالت کے حکم کو پڑھ لیں، جے آئی ٹی کو ہر طرح کا ریکارڈ حاصل کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ، تمام ادارے اسکے ساتھ تعاون کے پابند بنائے گئے، اسحاق ڈار کا بطور شریک ملزم حدیبیہ پیپر ملزکیس ٹرائل نہیں ہوا، اسحاق ڈار عدالت سے بری نہیں ہوئے، اسحاق ڈار حدیبیہ کیس میں شریک ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنے۔اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت آج(جمعرات) تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ