چیئرمین نیب کے تقرر پر تمام اپوزیشن جماعتوں سےمشاورت ہونی چاہئے: سپریم کورٹ
اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ میں نیب چیئرمین قمر الزمان چوہدری کی تقرری کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دئیے کہ این آئی سی ایل کیس میں لوٹے گئے اربوں روپے واپس آسکے نہ ہی اصل ملزموں کو گرفتار کرکے کوئی سزا دی گئی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بنائے قانون میں مداخلت نہیں کریں گے۔جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے مشاورت ہونی چاہئے‘ چیئرمین نیب کی تقرری سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کی گئی لہٰذا اس تقرری پر عدالتی فیصلے کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟ عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ قمرالزمان چوہدری صدر ضیاء الحق کے اے ڈی سی بھی رہے ہیں اور سرکاری ملازمت کے باوجود لوگوں کو پرائیویٹ طور پر ہزاروں روپے لیکر باہر بھجواتے رہے، ان کیخلاف کورٹ مارشل ہونا تھا مگر ضیاء الحق کی بیوی نے ایسا کرنے سے روکدیا اور انہیں سول سروس میں بھجوادیا۔ داغدار ماضی کے حامل افراد کو کس طرح چیئرمین نیب مقرر کیا جاسکتا ہے‘ تقرری میں چیف جسٹس سے مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ چیئرمین نیب کیسے آزاد عدلیہ کیخلاف ہوسکتے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ ایک شخص کیخلاف کارروائی کی وجہ سے آج بھی یہ تحفظات برقرار ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ کسی غلط اقدام کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ حامد خان نے کہا کہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے کیونکہ چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ ہے۔ انہوں نے بینک آف پنجاب کیس کا بھی حوالہ دیا۔ حامد خان نے کہا ملک اقبال توہین عدالت کیس میں قمرالزمان چوہدری کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے گئے تھے کہ انہوں نے عدالتی احکامات میں عملدرآمد کی بجائے عبدالرئوف چوہدری کو بھی نوٹس جاری کئے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کا کیا نتیجہ نکلا تھا۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ سماعت اپنے منطقی انجام کونہیں پہنچ پائی۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم کیسے اس پر کوئی بات کرسکتے ہیں۔ جس معاملے کی ابھی سماعت ہونا باقی ہے اس پر کون بات کرسکتا ہے۔ خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ تاحال قمرالزمان چوہدری کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت زیرالتواء ہے۔ حامد خان نے کہا کہ ایاز خان نیازی کی تقرری میں قمرالزمان کو بھی مخدوم امین فہیم سمیت دیگر افراد کے ذمہ دار قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ایاز خان نیازی کی تقرری شفاف نہیں تھی۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ کیا ان سب کیخلاف کارروائی ہوئی۔ حامد خان نے بتایا کہ بدقسمتی سے کارروائی نہیں ہوئی۔ قمر افضل نے بتایا کہ سب افسران کیخلاف کارروائی کی گئی تھی اور انکوائری کے بعد چیئرمین کو کلیئر قرار دے دیا گیا تھا۔ آپ وقت دیں گے تو تمامتر تفصیلات عدالت کو بتائوں گا۔