گورداسپور حملوں کے پاکستان پر الزامات‘ شیوسینا کے مظاہرے اور بھارتی کرکٹ بورڈ کا پاکستان سے کرکٹ نہ کھیلنے کا اعلان----- اب کوئی کمزوری نہ دکھائیں اور دفاع وطن کیلئے ڈٹ جائیں
بھارت نے گورداسپور میں بس اور تھانے پر مسلح دہشت گردوں کے گزشتہ روز کے حملے کا الزام بھی بغیر تحقیق کے پاکستان پر عائد کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش بادل نے دہشت گردی کے مسئلہ کو قومی پالیسی کے ذریعہ نمٹانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے الزام عائد کیا ہے کہ حملہ آور نارووال سے آئے جبکہ ایک پولیس افسر دینا گپتا کے بقول حملہ آور مقبوضہ کشمیر کے ہیں۔ اسی طرح مودی سرکار کے جونیئر وزیر جتندر سنگھ نے کہا کہ اس حملے میں پاکستان کی مداخلت خارج ازامکان نہیں۔ پاکستان پر یہی الزام بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی عائد کیا ہے جبکہ بھارتی ہندو انتہاء پسند شیوسینا نے پاکستان کیخلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس کے کارکنوں نے گزشتہ روز پاکستانی پرحم بھی نذر آتش کیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ مظاہرے شیوسینا کے ریاستی نائب صدر اندرجیت کروال کی قیادت میں کئے جا رہے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس دہشت گردی کے ابتدائی چند سیکنڈ میں ہی بھارت کی جانب سے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر تحقیقات کے پاکستان پر الزام عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور اسکے ساتھ ہی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ سیریز نہ کھیلنے کا اعلان کردیا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری انوراگ ٹھاکر کے بقول موجودہ حالات میں پاکستان کے ساتھ کرکٹ تعلقات استوار کرنا ممکن نہیں۔
اس بھارتی رویے سے تو بظاہر یہی محسوس ہورہا ہے کہ بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے کسی بہانے کی تلاش میں ہے اور ممبئی حملوں کی طرح گورداسپور حملے بھی ایسی ہی کسی بھارتی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ 2008ء میں ممبئی حملوں کا الزام بھی اسی طرح بغیر تحقیق کے پاکستان پر عائد کیا گیا اور ساتھ ہی نئی دہلی میں جاری پاکستان بھارت وزراء خارجہ کے مذاکرات کی بساط بھی لپیٹ دی گئی جس کے بعد اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی باور کرایا کہ پاکستان اب کشمیر کو بھول جائے۔ انہی ممبئی حملوں کو پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کیلئے بھارت آج تک استعمال کررہا ہے اور دوطرفہ مذاکرات کے ہر سلسلے میں موجودہ بھارتی حکمرانوں کی تان بھی ممبئی حملوں پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔
اس وقت جبکہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں کے حوالے سے بھارتی عزائم عالمی میڈیا اور دوسرے عالمی فورموں پر بے نقاب ہورہے ہیں جس کیلئے گزشتہ دنوں مار گرائے گئے بھارتی ڈرون کی صورت میں بھی بھارتی جارحانہ عزائم کے ثبوت پاکستان کو دستیاب ہو چکے ہیں تو اسے اپنی دفاعی پوزیشن کو دوبارہ جارحانہ پوزیشن میں تبدیل کرنے کیلئے گورداسپور جیسے ہی کسی واقعہ کی ضرورت تھی اس لئے ہمارے حکمرانوں کو اب ممبئی حملوں کی طرح کسی بھارتی دبائو میں نہیں آنا چاہیے اور بھارتی رویوں کا انہی کے لہجے میں جواب دینا چاہیے۔ اگرچہ دفتر خارجہ پاکستان نے گورداسپور حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کی تردید کی ہے اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گورداسپور میں ہونیوالی اس دہشت گردی کی مذمت بھی کی ہے تاہم جس طرح بھارتی حکام اور میڈیا گورداسپور حملے کی آڑ میں لٹھ لے کر پاکستان پر چڑھ دوڑا نظر آرہا ہے‘ اسکے پیش نظر ہمیں بھی بھارت کیخلاف جارحانہ دفاعی پالیسی اختیار کرنا ہوگی اور مؤثر سفارت کاری کے ذریعہ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین‘ او آئی سی‘ شنگھائی کانفرنس اور دوسری عالمی قیادتوں سے بھارت کو شٹ اپ کال دلانا ہو گی ورنہ پاکستان کی سالمیت کے معاملہ میں حالیہ بھارتی عزائم انتہائی خطرناک نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان اور بھارت کو کشیدگی میں کمی اور باہمی مسائل حل کرنے کیلئے کام کرنے کے مشورے دینے والے امریکہ کو بھی اصل بھارتی چہرہ دکھا کر اس سے تقاضا کیا جانا چاہیے کہ وہ رسمی مشورے دینے کے بجائے جارحیت پر تلے بھارت کا ہاتھ روکے ورنہ اسکی لگائی جنگ کی آگ عالمی امن کو بھی دامن گیر ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے آئی ایس پی آر نے پاکستان میں مار گرائے جانیوالے بھارتی ڈرون سے متعلق حقائق سامنے لا کر بروقت اور درست اقدام اٹھایا ہے۔ گزشتہ روز آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں باور کرایا گیا ہے کہ کنٹرول لائن پر چند روز پہلے گرائے گئے جاسوس طیارے سے ملنے والی تصاویر سے اس طیارے کے بھارتی ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں جسے پاکستان کی جاسوسی کیلئے بھارت کے زیر قبضہ علاقے سے اڑایا گیا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے اسی حوالے سے باور کرایا گیا ہے کہ بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر اچانک جارحانہ رویہ اختیار کرلیا ہے جس کے تحت بڑی تعداد میں جاسوس طیارے اڑائے جا رہے ہیں۔ بھارتی فوج غیرمعمولی نقل و حرکت کررہی ہے اور پاکستانی شہریوں کو تاک کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر جارحیت کی شدت میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کی جا رہی ہے۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ بھارت نے 9جون سے اب تک جنگ بندی کی 35 بار خلاف ورزی کی ہے جبکہ 15 جولائی کو بھارت کی طرف سے ایک ’’کواڈکاپٹر‘‘ مشن بھیجا گیا جس نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے جوڑیاں سیکٹر سے پاکستان کے بھمبر کے قریب پنچریاں سیکٹر میں گھسنے کی کوشش کی جسے پاکستانی فوج نے مار گرایا۔ اس کواڈ کاپٹر کی تجرباتی پرواز سے قبل کی ایک تصویر میں اسے انڈین سیکٹر کمپنی کے ہیڈکوارٹر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی افواج کی نقل و حرکت اسکے جارحانہ عزائم کی نشاندہی کرتی ہے اس لئے اب ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو اسی تناظر میں اپنی مؤثر اور ٹھوس دفاعی حکمت عملی طے کرنی چاہیے جس میں بھارت کو اسکی جنونیت کا دوٹوک جواب بھی دیا جائے اور اسکی کسی بھی قسم کی جارحیت کا توڑ بھی کیا جائے۔ مودی سرکار کے اب تک کے اقدامات اور فیصلوں سے تو یہی عندیہ مل رہا ہے کہ اسے پاکستان پر جارحیت کے ارتکاب کی جلدی ہے جس کیلئے وہ سیزفائر لائن کے تقاضے نبھا رہی ہے نہ سفارتی ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھ رہی ہے۔ آئی ایس پی آر کے بقول اگر صرف گزشتہ ڈیڑھ مہینے کے دوران بھارت جنگ بندی کی 35 بار خلاف ورزی کر چکا ہے تو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے بھارتی عزائم اب ہمارے حکمرانوں کیلئے ڈھکے چھپے تو نہیں رہنے چاہئیں جبکہ بھارتی وزیر دفاع خود بڑ مار چکے ہیں کہ بھارتی فوج کی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے ہمیں پاکستان سے ایک اور جنگ کرنا پڑیگی۔
یقینی طور پر اب گورداسپور حملے کے بعد بھارت کا رویہ اور لہجہ مزید سخت ہو گا جس کا گزشتہ روز کے متعدد بھارتی وزراء اور حکام کے بیانات سے عندیہ بھی مل رہا ہے اس لئے اب ہمیں بھی بھارت کے ساتھ دفاعی پوزیشن پر آنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اگر بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ سیریز نہ کھیلنے کا عندیہ دیا ہے تو ہماری جانب سے بھی بھارت کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی کسی بے تابی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کے غم میں مبتلا ہمارے ثقافتی‘ تجارتی حلقوں اور امن کی آشا کا راگ الاپنے والوں کو بھی اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور حکومتی صفوں میں بھی جو لوگ بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں یکطرفہ طور پر نرم گوشہ رکھتے ہیں انہیں بھی اب دفاع وطن کے تقاضوں کے تحت اپنی سوچ اور پالیسیوں سے رجوع کرلینا چاہیے کیونکہ ہمارے حکمرانوں اور دوسرے بھارت نواز حلقوں کے اس نرم گوشے کے باعث ہماری کمزوری کا تاثر ملتا ہے تو اس سے ہی مودی سرکار کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور اسکی جانب سے پاکستان پر بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی جاتی ہے۔ گورداسپور حملوں کے بعد اب بھارت کی جانب سے جس جارحانہ ردعمل کا مظاہرہ اور اظہار کیا جارہا ہے‘ اسکے پیش نظر اب بھارت کے ساتھ دوستی کا راگ الاپنا بند کر دیا جائے اور دفاع وطن کی فکر کی جائے۔ اگر ملک کی سالمیت کیخلاف سنگین بھارتی خطرات کو بھانپ کر بھی ہم نے امن کی خواہش کو فوقیت دینی اور موذی دشمن کو اپنی کمزور دکھانی ہے تو پھر ہماری ایٹمی استعداد و صلاحیت بھی کس کام کی؟ خدارا! اب ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک کریں اور ڈٹ جائیں ورنہ…ع
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں