گرمی بڑھتے ہی لوڈشیڈنگ میں بدترین اضافہ، لوگ پریشان، کاروبار ٹھپ، کئی شہروں میں مظاہرے، شارٹ فال 7ہزار میگاواٹ تک پہنچ گیا۔تمام تر حکومتی دعوئوں کے باوجود ملک میں بجلی کا بحران ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کاغذوں پر 2 برس سے حکومت درجنوں بجلی کے معاہدوں پر دستخط کر چکی مگر عملی طور پر بجلی کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں درجہ حرارت 43 سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے‘ اگر اسکے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہوتا ہے تو یہ صورتحال ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مترادف ہوگی۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے بھی اپنے 5سالہ دور میں ایسے کئی منصوبوں پر دستخط کئے جن کے مطابق چند برسوں میں بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ مگر آج تک ان معاہدوں کا رتی بھر فائدہ عوام کو پہنچا۔ یہی حالت موجودہ حکومت کے دور میں بھی ہے۔ بجلی فراہم کرنے والے ادارے ابھی تک دستیاب بجلی کی فراہمی میں بہتری نہیں لا سکے۔ لائن لاسز، بجلی کی چوری بوسیدہ بجلی کا نظام درست نہیں کر سکے۔ بجلی کی پیداوار میں اضافہ تو دور کی بات ہے۔ اگر یہ ادارے اپنی ان خامیوں پر ہی قابوپا لیں تو دستیاب بجلی سے بھی لوڈشیڈنگ کا یہ بحران کم ہو سکتا ہے۔ اس وقت کاروبار، تجارت، انڈسٹری زراعت کے ساتھ گھریلو زندگی بھی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ لوگ اگر سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کر رہے ہیں تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لئے عملی اقدامات میں تیزی لائے ورنہ موجودہ حکومت کا بھی وہی حشر ہو گا جو پیپلز پارٹی کی حکومت کاہوا ہے۔ خیبر پی کے میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے مطابق محکمانہ غفلت کے باعث 120میگاواٹ بجلی جو استعمال نہیں ہو رہی تھی کو لائن میں لا کر پشاور سمیت 126فیڈروں سے لوڈشیڈنگ ختم کر دی گئی ہے تو باقی صوبے ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔لوڈشیڈنگ میں کمی کے لئے بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو بجلی کی پیداوار میں اضافہ، بجلی چوری کی وارداتوں میں کمی اور لائن لاسز پر قابو پانا ہو گا اور جان لیوا گرمی کے ستائے عوام کو لوڈشیڈنگ میں اضافہ کرکے مزید نڈھال اور سسٹم سے بے گمان نہ کیا جائے تو یہ حکومت کیلئے بہتر ہوگا۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024