جدید چین کے معمار ما¶زے تنگ سے جب یہ پوچھا گیا کہ چین کی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لئے وہ کوئی اقدامات کیوں نہیں کر رہے تو ما¶ نے جواباً کہا تھا کہ میرے خیال میں ”انسان پہلے پیدا کرتا ہے اور پھر کھاتا ہے“۔ ما¶زے تنگ نے چین میں انقلاب برپا کرنے کے بعد اس کی تعمیر اور ترقی میں اپنی آبادی کو ایک منصوبہ بندی کے تحت بڑے موثر طورپر استعمال کیا۔ چین کی آبادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے انسانی وسائل کو انتہائی موثر طورپر استعمال کیا۔ زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا۔ ما¶زے تنگ کی وفات کے بعد دینگ سیا¶ ینگ کی قیادت میں ما¶زے تنگ کی پالیسیوں پر نظرثانی کی۔ معیشت کو ریاستی کنٹرول سے بتدریج آزاد کیا اور معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کیا۔ گزشتہ پچیس برس میں چین دنیا کی معاشی سپرطاقت بن کر ابھرا ہے۔ اس عرصہ میں چین نے آبادی میں اضافے کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کئے اور ”ون چائلڈ“ پالیسی اپنائی جس سے چین کی آبادی بڑھنے کی رفتار کم ہو گئی۔ ون چائلڈ پالیسی اپنانے کے نتیجے میں چین میں آبادی کے نئے مسائل پیدا ہو گئے۔ چینی حکومت کو محسوس ہوا کہ ”ون چائلڈ“ یعنی صرف ”ایک بچہ“ پالیسی کے نتیجے میں آبادی میں کمی آ رہی ہے جس کے بعد چین نے ”دو بچوں“ کی پالیسی اپنائی۔ اس پالیسی کے باوجود چینی خاندان اب ”ایک بچہ“ پالیسی پر ہی عملدرآمد کر رہے ہیں۔
پاکستان میں پاپولیشن پلاننگ کے تحت جو پالیسی اپنائی گئی ہے اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلے۔ محکمہ بہبود آبادی کے یہ معروف نعرے ”بچے دو ہی اچھے“ ”کم بچے خوشحال گھرانہ“ کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ حال ہی میں جو مردم شماری کرائی گئی ہے اس کے مطابق پاکستان کی آبادی اب 20 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ تازہ ترین مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ خاص طورپر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ شہروں کی آبادی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ فیصل آباد‘ ملتان‘ راولپنڈی کی آبادی بھی بے حد بڑھ گئی ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ آج سے پندرہ برس پہلے اسلام آباد کی آبادی موجودہ آبادی کا نصف تھی جو لوگ پندرہ برس کے اسلام آباد سے واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ ملک کا دارالحکومت کس قدر پرسکون اور سرسبز تھا آج اسلام آباد میں آبادی کا دبا¶ واضح طورپر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ملک کی 21 کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں غالب تعداد نوجوانوں کی ہے جن کی عمریں پندرہ سال سے تیس سال کے درمیان ہیں۔ نوجوان آبادی کسی ملک کے لئے ایک اثاثہ ہوتی ہے لیکن یہ اسی صورت میں اثاثہ ہوتی ہے جب نوجوان تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہوں۔ ناخواندہ‘ نیم خواندہ اور غیر ہنر مند نوجوان ملک اور معاشرے کے لئے ایک عذاب بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں کتنی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی اور قطعی تعداد سامنے نہیں آئی۔ کچھ سروے‘ دعوے کرتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 63 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ بعض سروے کہتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 64 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو معاشی اور سماجی ترقی کے لئے استعمال کرنے کی کوئی منصوبہ بندی ہماری حکومت کے پاس ہے اور کیا اتنے وسائل ہیں کہ وہ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنا کر انہیں ترقی کا انجن "Engine of Growth" کی شکل دے سکیں۔ بظاہر تو ایسا نظر نہیں آتا۔ ہمارے تعلیمی اور فنی اداروں سے جو نوجوان فارغ ہو کر نکلتے ہیں انہیں روزگار فراہم کرنے کے لئے کیا انتظامات کئے گئے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے کوئی حکمت عملی موجود ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہمارے منصوبہ ساز ہی دے سکتے ہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی جامع حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ ہمارے کئی ادارے اور لیڈر تسلسل سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دو کروڑ سے زیادہ پاکستانی بچے تو ایسے ہیں جو سکول نہیں جا رہے۔ یہ بچے ہمیںگھروں‘ کھیتوں‘ ورکشاپوں پر کام کرتے یا بڑے شہروں میں صفائی کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جو کروڑوں نوجوان ڈگری یافتہ ہیں وہ ہاتھ میں ڈگری اٹھائے مارے مارے پھرتے ہیں۔ انہیں کوئی روزگار نہیں مل رہا۔ اس صورتحال سے جہاں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے وہاں جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد اس کے سیاسی اثرات پر تو بعض سیاستدانوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن اصل کام معیشت دانوں اور سماجی سائنسدانوں کا ہے کہ وہ پاکستان میں آبادی کا طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی سامنے لائیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024