میرا یہ کالم چھپ کر آپ کے سامنے آنے تک سوہنے شہر لاہور میں رونق لگ چکی ہو گی۔ میرا نہیں خیال کہ جو گہما گہمی آپ کو ٹی وی سکرینوں پر نظر آ رہی ہو گی، مقصد اس کا صرف لاہور سے ملتان جانے والی سڑک پر واقع اڈا چوک پر ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام ہے۔ عمران خان صاحب کے نمائندوں نے لاہور کی انتظامیہ کو یہ یقین بھی دلارکھا ہے کہ ان کے قائد شب نو بجے تک اپنی تقریر ختم کر چکے ہوں گے۔ تقریر ختم ہونے کے ساتھ ہی تماشہ بھی ختم ہو جایا کرتا ہے۔
نیتوں کا حال تو صرف میرا ربّ ہی جان سکتا ہے۔ ہمیں مگر یہ بھی سمجھا یاگیا ہے کہ لوگوں کے اعمال ان کی نیتوں کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ مقصد اگر صرف ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام ہی ہوتا تو عمران خان بذاتِ خود صرف لاہور میں تین دن رہ کر مختلف بازاروں اور کوچوں میں لوگوں کو اپنے جلسے میں آنے کی دعوت پوری لگن کے ساتھ دیتے ہوئے نہ دیکھے جاتے۔ ایسی تیاری تو انہوں نے اکتوبر 2011ء کے اس اجتماع کے لئے بھی نہیں کی تھی جس نے مینارِ پاکستان کے میدان کو لوگوں سے بھر دیا تھا۔
وہ میدان بھرا تو لوگوں کو یقین آ گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد قیامِ پاکستان کے بعد کی تاریخ میں ایک اورCrowd Puller رونما ہوگیا ہے۔ میں اگرچہ ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتا رہا ہوں کہ لاہور میں قیامِ پاکستان کے بعد کی تاریخ میں آج تک لوگوں کا وہ اجتماع دیکھنے کو نہیں ملا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی 10 اپریل 1986ء کی صبح لاہور ائیر پورٹ پر آمد کے بعد نظر آیا تھا۔ ائیر پورٹ سے یہ اجتماع مینارِ پاکستان کی طرف بذریعہ مال روڈ روانہ ہوا۔ اس اجتماع کے منزل تک پہنچنے تک شام گہری ہو چکی تھی۔ ریگل چوک پر محترمہ کے ساتھ ان کے ٹرک پر کھڑے ہوکر میں نے دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے دیکھا تھا۔ جہاں تک نظر گئی انسانی سروں کا ہجوم ہی نظر آیا۔
محترمہ کے استقبالی ہجوم اور اس کے جوش و خروش کو لمحہ بہ لمحہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہوئے سیاسی واقعات کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد مگر یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی کہ ’’عظیم الشان جلسے‘‘ انتخابی سیاست پر ایک حد تک ہی اثرانداز ہوتے ہیں۔ صرف ان کی بدولت ’’انقلاب‘‘ برپا نہیں ہونے ہوتے۔ ٹھوس تجربات کی بدولت سیکھے ان خیالات کا اظہار مگر جب میں نے اپنی تحریروں اور ٹی وی کے ذریعے کرنا شروع کیا تو مجھے Status-Quo کا حامی بنا دیا گیا ہے۔ ’’لفافے‘‘ وغیرہ لینے کے الزامات بھی لگے۔ مئی 2013ء نے لیکن میرے خیالات کی کافی حد تک تصدیق فراہم کردی۔
اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے مجھے کہنا صرف یہ ہے کہ عمران خان کا اصل ہدف 30 ستمبر کے دن لاہور میں ایک اور عظیم الشان جلسے کا اہتمام ہرگز نہیں ہے۔ ارادے کچھ اور ہیں۔ مجھے ان ارادوں کی ہرگز خبر نہیں۔ تھوڑا سا علم بھی ہوتا تو آپ کے روبرو ضرور بیان کر دیتا۔ مجھے شبہ ہے کہ عمران خان کے کئی قریبی ساتھیوں کو بھی اصل پروگرام کا علم نہیں۔ کپتان نے سارے پتے اپنے سینے سے لگا رکھے ہیں۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر، جنہوں نے چو این لائی کی دعوت پر ان کے ملک جا کر انہیں انقلاب برپا ہونے کے بعد بنتے ریاستی نظام کو مستحکم کرنے کے گُر بتائے تھے، شاید ان پتوں کی بابت کچھ جانتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ’’پتے‘‘ ہمارے بقراط نے ’’کہیں‘‘ سے لے کر کپتان کو پہنچائے ہوں۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے کسی ہوشیار قاصد کی طرح خود بھی ان پتوں کو کھول کر دیکھا ہے یا نہیں۔ اس کے بارے میں مجھے کچھ خبر نہیں۔
نیتوں کا حال تو صرف میرا ربّ جانتا ہے۔ لوگ اپنے اعمال کے ذریعے لیکن ان کا اظہار کر دیتے ہیں اور عمران خان اپنے سیاسی کیرئیر میں پہلی بار دن رات بذاتِ خود شہر شہر اور لاہور کے مختلف مقامات کے پھیرے لگاتے ہوئے لوگوں کو لاہور کے جلسے کے لئے بُلاتے رہے ہیں۔ اس جلسے کو وہ اپنی تحریک کا ’’فیصلہ کن‘‘ مرحلہ بھی کہہ رہے ہیں۔ ’’اڈا چوک‘‘ میں دھواں دھار تقاریر کے بعد لوگوں کو اپنے گھروں کو لوٹ جانے کی اجازت دے دی گئی تو 30 ستمبر ’’فیصلہ کن‘‘دن نہیں بن پائے گا۔ اڈا چوک پر جمع ہوئے ہجوم کو ’’مزید‘‘ کچھ کرنا ہو گا۔
انتظامیہ کے ساتھ وعدے وعید تو 14 اگست 2014ء میں بھی ہوئے تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ کو، جو عمران خان کے ذاتی دوست بھی ہُوا کرتے ہیں، باقاعدہ اور غیر رسمی وسیلوں کے ذریعے یقین دلایا گیا تھا کہ عمران خان کی قیادت میں لاہور سے چلا قافلہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہو گا۔ آبپارہ چوک کے سامنے ’’یاسمین و گلاب پارک‘‘ سے شکرپڑیاں تک جانے والے وسیع اور غیر رہائشی جنگل نما رقبہ اس قافلے کی منزل ہو گی جہاں ان کا پڑائو طویل بھی ہو سکتا ہے۔
عمران اور ان کے کینیڈا سے آئے اس وقت کے ’’کزن‘‘ مگر تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے اسلام آباد کے ریڈ زون میں قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل عمارت کے عین سامنے تک پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ تک پہنچنے کے لئے جج اور وکلاء یہی راستہ استعمال کرتے ہیں۔ مختلف وزارتوں کے دفاتر بھی اس عمارت کے پڑوس میں واقع ہیں۔ عمران خان اور ان کے کینیڈا سے آئے کزن کے ساتھی وہاں 126 روز تک بیٹھے رہے۔ مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت کی ریاستی انتظامیہ انقلابیوں کے سامنے بے بس ہو گئی۔ پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے دعوے دار نواز شریف کو پریشانی میں آرمی چیف سے التجا کرنا پڑی کہ وہ معاملات کو معمول پر لانے کے لئے کوئی کردار ادا کریں۔ جنرل صاحب نے اپنے تئیں کوشش بھی کی۔ بات مگر بنی نہیں۔ APS والا سانحہ ہوا تو اسلام آباد دوبارہ ایک سرکاری درباری شہر بن سکا۔
اگست 2014ء کے دن اور اس کے بعد کے طویل عرصے کو بھگتنے کے بعد مجھے یہ دعویٰ ہضم کرنے میں کافی مشکل پیش آ رہی ہے کہ عمران خان صاحب اڈا چوک میں جمع ہوئے انسانوں کے جذباتی ہجوم سے خطاب فرما کر زمان پارک اپنے گھر تشریف لے جائیں گے۔
شہباز شریف صاب مگر 2008ء سے اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پنجاب کے جہاں دیدہ حاکم ہیں۔ راولپنڈی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے چو این لائی کو اپنی فراست سے متاثر کیا تھا تو موجودہ چینی حکمران شہباز صاحب کی ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کے بارے میں حیرت سے منہ کھولے ہوئے ہیں۔ اہم معاملات کے بارے میں فیصلہ سازی کرتے ہوئے اس دور کے ’’میرمنّوں‘‘ اپنے ماتحت افسروں کے علاوہ صرف وفاقی وزیر داخلہ جناب نثار علی خان کی فراست پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان دونوں نے باہم مل کر کپتان کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔ ’’معرکہ‘‘ ہمیشہ فریقین کے مابین برپا ہوا کرتا ہے۔ شہباز صاحب اور چودھری نثار علی خان جب اکھاڑے میں اُترے ہی نہیں تو کپتان 30 ستمبر کو ’’فیصلہ کن‘‘ کیسے بنا پائیں گے؟ چونکہ میں اس سارے قصے کو ہرگز سمجھ نہیں پا رہا ہوں، اس لئے انتظار کرنا ہی بہتر ہے۔ اتوار کی صبح یہ کالم لکھتے وقت تک شاید کٹا یا کٹی میں سے کوئی ایک برآمد ہو چکا ہو گا۔