قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے اطلاعات کی چیئر پرسن ماروی میمن نے فوجی آمریت کی نرسری میں پرورش پائی انفارمیشن ٹیکنالوجی پر عبور رکھنے کی وجہ سے انہیں فوجی حکومت میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور کھل کر کام کرنے کا موقع ملا ان کی یہ صلاحیت ہی ان کو پارلیمنٹ میں لے آئی لیکن انہوں نے بہت جلد محسوس کیا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ(ق) میں ’’ان فٹ‘‘ ہیں لہٰذا وہ استعفیٰ دے کر پارلیمنٹ سے باہر آگئیں لیکن جلد انہیں مسلم لیگ (ن) کی صورت میں اپنی منزل مل گئی وہ سندھ میں مسلم لیگ(ن) کی کمزور پوزیشن کے باوجود قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئیں جس کے بعد پارٹی قیادت نے انہیں قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے اطلاعات و نشریات کی چیئرپرسن بنا دیا اگرچہ وہ سینیٹر پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق کو اپنا سیاسی استاد مانتی ہیں لیکن ان کی مسلم لیگ(ن) میں پذیرائی ان کی خداداد صلاحیتوں کا اعتراف تھا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ماہر سے پارٹی نے وہ کام لیا ہے جس میں وہ مہارت رکھتی ہیں جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے تحریک انصاف کے ’’حملہ‘‘ کا زور دار جواب دینے کا فیصلہ کیا تو ماروی میمن نے چند دنوں میں ’’تبدیلی کے نام پر ایک بہت بڑا دھوکہ ‘‘ کے عنوان سے قر طاس ابیض تیار کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔ یہ قرطاس ابیض اس حد تک جامع اور حقائق پر مبنی ہے کہ تا حال تحریک انصاف نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ماروی میمن نے اپنے ’’سیاسی استاد ‘‘ سینیٹر پرویز رشید کی موجودگی میں وائٹ پیپر جاری کیا ہے تاہم نجکاری کمشن کے چیئرمین محمد زبیر بھی ان کی اخلاقی امداد کے لئے موجود تھے 100 صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر میں خیبر پختونخوا حکومت کی کار کردگی کا پنجاب حکومت سے تقابل پیش کیا گیا ہے۔ وائٹ پیپر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بجٹ کی بدانتظامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ 80 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز میں سے بھی صرف 25 ارب روپے خرچ ہوئے 23 بڑے ترقیاتی زیر التواء ہیں ان کے منصوبوں کاانحصار 20 فیصد غیر ملکی امدادی اداروں پر ہے خیبر پختونخوا حکومت ابھی تک زرعی ٹیکس کا فیصلہ نہیں کر سکی۔ تحریک انصاف کے 82فیصد ارکان اسمبلی’’ کے بارے بتایا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس چوری‘‘ میں ملوث ہیں۔چینی سرمایہ کاروں نے کرپشن کی وجہ سے خیبرپختونخوا جانے سے انکار کر دیا ہے وائٹ پیپر میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے تین بڑے گھر ہیں اطلاعات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد نہیںکیا گیا صوبائی وزراء پر کرپشن کے الزامات تھے لیکن ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ان الزامات کا کیا بنا؟ تحریک انصاف کا خیبر پختونخوا کا90 ایام میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ بھی ناکام رہاہے خیبر پختونخوا میں کوئی لیبر بورڈ ہے اور نہ ہی لیبر انسپکٹرز۔ انتخابی منشور کے تحت صحت کے بنیادی مرکز اپ گریڈ ہو سکے اور نہ ہی سکولوں کی تعداد کو دگنا کیا جا سکا وزیراعلیٰ کے اپنے حلقے میں تاحال بغیر چھت کے سکول موجود ہیں خیبرپختونخواہ کے سات اضلاع میں ڈینگی کی نشاندہی ہو چکی ہے لیکن وزیر اعلیٰ ڈی چوک میں دھرنے میں بیٹھے ہوئے ہیں خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی اس حد تک ناقص ہے پوری حکومت دھرنے میں آکر بیٹھ گئی بیشتر عوامی مسائل کے حل کیلئے 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات صوبوں کو مل گئے ہیں لیکن نوجوانوںکو بھی تحریک انصاف کی حکومت نے مایوس کیا ہے ٹیکسوں میں اضافے میں بھی صوبائی حکومت ناکام رہی ہے سرمایہ کاری اور توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے بھی کارکردگی مایوس کن رہی صحت کے بنیادی مرکز کو اپ گریڈ نہ کر سکے اسی طرح پارٹی منشور کے تحت سکولوں کی تعداد کو دگنا نہیں کیا جاسکا خیبر پختونخوا کی علاقائی زبان کو منشور کے تحت وہ مقام نہیں مل سکا جس کا وعدہ کیا گیا سٹی ٹرانسپورٹ منصوبے کیلئے 51 ارب روپے رکھے گئے لیکن اس کا کیا بنا؟ کسی کو معلوم نہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے حلقے میں اوپن سکائی سکولز موجود ہیں تعلیمی عدم مساوات ہے کسی بچے پر اٹھارہ ہزار روپے اور کسی بچے پر آٹھ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں بے گھر خاندانوں کے بچوںکی تعلیم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اساتذہ کو ترقیاں نہیںدی جاسکیں تحریک انصاف کی قیادت پولیو کے خاتمے کی بجائے دھرنا دیئے بیٹھی ہے سول نافرمانی کے اعلان پر خیبرپختونخوا میں ان کے ارکان اورصوبائی حکومت کی جانب سے معمولی سا بھی عملدرآمد نہیں ہوا تحریک انصاف کے وزراء کو جعلی ڈگری میں نااہل قرار دیا جا رہا ہے خیبرپختونخوا حکومت کی کوئی سیکیورٹی پالیسی نہیں ہے خیبر پختونخوا کو ایک فیصد اضافی محاصل دیئے جا رہے ہیں لیکن وہ کہاں خرچ ہو ئے ہیں اس بارے میں کسی کو معلوم نہیں۔ سروس سٹرکچر کی کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی اطلاعات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد ہو رہا ہے اسی طرح معدنیات کی پالیسی کی منظوری بھی نہیں دی جاسکی قانون سازی کا عمل سست روی کا شکار ہے دھرنا کی وجہ سے پچھلے اڑھائی ماہ سے خیبرپختونخوا اسمبلی غیر فعال ہے نج کاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد ایئر پورٹ کے راول لائونچ میں عمران خان نے ان سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ خیبرپختونخوا میں سسٹم نہیں چل سکتا انہوں نے استفسار کیا کیوں ؟ تو عمران خان نے کہا کہ 80 فیصد وزراء کو فائل ہی نہیں کھولنا آتی انہیں کام ہی نہیں آتا میں نے کہا انہیں وزراء کیوں بنایا؟ عمران خان نے کہا کہ منتخب لوگوں میں ہی سے وزیر بنانا تھا قر طاس ابیض میں کہا گیا ہے کہ پچھلے 14ماہ میں خیبر پختونخوا اور نہ ہی ڈی چوک میں’’ نیا ‘‘ پاکستان نظر آیا خیبر پختونخوا دوسرا کم ٹیکس اکٹھا کرنے والا صوبہ بن گیا ہے اس کے 11.7بلین روپے کے ٹیکس کے مقابلے میں پنجاب میں 96.4بلین روپے اکٹھے ہوئے ہیں بند صنعتوں کی بحالی کے پیکج کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا تحریک انصاف کے منشور میں 15فیصد زرعی ٹیکس نافذ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن خیبر پختونخواحکومت نے صرف 5 فیصد زرعی ٹیکس تجویز کر سکی ہے اس پر بھی عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ صوبہ پختونخوا میں اچھی گورننس کے لئے بھی کچھ نہیں کیا گیا الغرض خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی 14ماہ کی حکومت کی ناقص کارکردگی کی ایک طویل داستان ہے اس بارے میں تحریک انصاف کی قیادت ہی بہتر طور جواب دے سکتی ہے لیکن تحریک انصاف نے ماروی میمن کے تیار کردہ ’’قرطاس ابیض‘‘ کا جواب دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی شاید تحریک انصاف کی قیادت نے ماروی میمن کی تیار کردہ چارج شیٹ کو قبول کر لیا ہے کیونکہ اس میں اعدادو شمار کے جو حوالے دئیے گئے ہیں کوئی اس کی تردید نہیں کر سکتا عمران خان دھرنے کے بعد خود تو’’ جلسہ جلسہ‘‘ کھیل رہے ہیں جب کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنا کام کاج چھوڑ کر شاہراہ دستور پر ’’دھرنا‘‘ دے رکھا ہے شاید ان کے پاس خیبر پختونخوا حکومت کے لئے کوئی وقت نہیں ہے عمران خان کی تمام تر سیاست الزامات پر مبنی ہے یہی وجہ ہے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے ان کو ’’الزام خان‘‘ کا طعنہ دیا ہے اگر عمران خان یا تحریک انصاف خیبر پختونخوا حکومت کی کار کردگی کا دفاع نہیں کرتی تو کم از کم پرویز خٹک کو ماروی میمن کے وائٹ پیپر کا جواب دینا چاہیے وفاقی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی بجائے خیبر پختونخوا میں ’’گڈ گورننس‘‘ سے پارٹی کا امیج بہتر بنانا چاہیے خیبر پختونخوا کو مثالی صوبہ بنا کر ہی دیگر صوبوںکا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگا کر تحریک انصاف کے حامیوں کو زیادہ دیر تک مطمئن نہیں رکھاجاسکتا وقت کے ساتھ ساتھ اس نعرے کی کشش میں کمی آجائے گی بالآخر بہتر کارکرگی دکھا کر ہی سیاست کا میدان مارا جا سکتا ہے الزامات پر مبنی سیاست زیادہ دیر نہیں چل سکتی عام انتخابات 2018میں ہوں یا اس سے قبل ہر سیاسی جماعت کو عوام کے سامنے اپنے’’ اعمال‘‘ کی دستاویز پیش کرنی پڑے گی بلند بانگ دعوے اور اہم سرکاری عمارات کو عوام کے لئے کھول دینے کے نعرے لگانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اس نوعیت کے پرکشش نعرے لگاتے رہے ہیں جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو اس نعرے کو عملی شکل نہیں دیتے لہٰذا عمران خان کو الزام تراشی کی سیاست ترک کر کے مثبت انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024