آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی دوست ڈاکٹر عاصم کو نوے روز تک تقریباََ قید تنہائی میں رکھنے کے بعد بدھ کی رات کراچی کے ایک تھانے میں جو مقدمہ درج کروایا گیا اس کے متن کو ذرا غور سے پڑھا تو ہنسی آگئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مگر فکر مند ہوکر سوچنا یہ شروع ہوگیا کہ وطن عزیز پر دائمی حکمرانی کا حق واختیار رکھنے والے اداروں سے وابستہ افراد اپنے رعونت بھرے اعتماد سے نجات کب پائیں گے۔
1970ء کی دہائی یاد آگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ پنجاب میں ان کے لاڈلے غلام مصطفیٰ کھر گورنر ہائوس لاہور میں براجمان تھے۔ موصوف اس عہدے پر اگرچہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ والے نعرے کی بدولت پہنچے تھے، مگر حکمرانی کے لئے رول ماڈل ان کا امیر محمد خان تھا۔
موٹی آنکھوں، بھاری مونچھ اور ململ سے اکڑے شملے والی پگڑی کے ساتھ اپنے وجود کو دہشت کی علامات بنائے، امیر محمد خان، 1960ء کی دہائی میں آج کے پورے پاکستان کے مکمل طورپر بااختیار گورنر تھے جو ان دنوں مغربی پاکستان کہلاتا تھا۔ یہاں کے باسی ان کی نظر میں شہری نہیں رعایا ہوا کرتے تھے اور کالا باغ کا یہ پیدائشی نواب انہیںقابو میں رکھنے کے لئے وہی ہتھکنڈے استعمال کرتا جو اس کی جبلت نے ورثے میں حاصل کئے تھے۔
غلام مصطفیٰ کھر، امیر محمد خان کی طرح انگریزی سامراج کے سند یافتہ کسی نوابی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ موصوف کو ساری عمر بلکہ احساس کمتری اپنا تقابل مظفر گڑھ کے گورمانی اور نصراللہ کے خاندانوں سے کرتے ہوئے ہی محسوس ہوتا رہا۔ تھانے کچہری کے ذریعے دشمن کو ذلیل ورسوا کرنے میں وہ مستند جابروں کے ریکارڈ بھی توڑنا چاہتے تھے۔
گجرات سے ابھر آئے تھے ایک سیاست دان چودھری ظہور الٰہی اور وہ غلام مصطفیٰ کھر کے ’’چیئرمین‘‘ کو اکثر اپنے بیانات سے پریشان کردیتے۔ ظہور الٰہی کو ’’اس کی اوقات میں لانے‘‘ کے لئے بھینس چوری کا ایک مقدمہ درج کرلیا گیا۔ اس سے بھی بڑا لطیفہ مگر لاہور کے درویش منش شاعر استاد دامن کے ساتھ ہوا۔
بھٹو صاحب نے شملہ معاہدے پر دستخط کئے تو استاد کی ایک نظم زبان زدِعام ہوئی جس میں ’’کی کری جانا ایں‘‘ کی تکرار تھی۔ یہ شاعر شاہی محلے کے ایک ایسے حجرے میں رہا کرتا تھا جو کبھی لاہور کے عظیم ملامتی مادھولال حسین کا ٹھکانہ سمجھاجاتا تھا۔ غلام مصطفیٰ کھر نے پولیس کے ذریعے اس حجرے سے ایک بم برآمد کرواکر استاد دامن کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بنادیا۔ الزام کی سنگینی کے باوجودلطیفہ بن گیا۔ امیر محمد خان اور غلام مصطفیٰ کھر کا اپنا انجام کیا ہوا؟ یہ کہانی پھر سہی۔
فی الوقت میرا دُکھ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عاصم نہ تو چودھری ظہور الٰہی جیسے جی دار سیاست دان ہیں اور نہ ہی استاد دامن کی مانند ایک مکمل درویش۔ خاندانی تعلق موصوف کا سر ضیاء الدین جیسی ہستی سے بالکل ہے، مگر روزمرہّ زندگی میں رویہ ویسا ہی جو کراچی سے تعلق رکھنے والے کئی سیٹھ نما حضرات اپنائے رکھتے ہیں اور دوستوں کے حلقے میں ’’تیز‘‘ شمار ہوتے ہیں۔
ایسے افراد کی پھرتیاں انہیں اکثر مشکلات کا شکاربھی بنادیتی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم بھی بالآخر پھنس گئے۔ پہلی بار تفتیش اور تھانہ کچہری بھگت رہے ہیں۔ چونکہ بیک گرائونڈ ان کا ہرگز سیاسی نہیں اس لئے ان جماعتوں کے سرکردہ لوگوں کی بھرپور حمایت بھی اپنی مشکل کی گھڑی میں حاصل نہیں کرپائے جن جماعتوں کے ’’دہشت گردوں‘‘ کی معاونت کا ان پر الزام ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اپنے پر آئے اس کڑے وقت سے ڈاکٹر عاصم کیسے نبردآزما ہوتے ہیں۔ تھوڑا سا ڈٹ گئے تو یہ وقت بھی لیکن گزر ہی جائے گا کیونکہ مقدمہ کمزور ہے اور موصوف پاکستان کے مہنگے ترین وکلاء کی خدمات خریدنے کی سکت بھی رکھتے ہیں۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی اصل کمزوری ان کی اہلیہ ہیں جن پر ایک مہلک مرض حملہ آور ہوچکا ہے ۔ وہ پوری محنت اور توجہ سے ان کا علاج کروانا چاہ رہے ہیں۔ شاید اس وجہ سے ان سب کاغذات پر بخوشی دستخط کرکے اپنی جان چھڑانے پر آمادہ ہوجائیں جن کا اصل مقصد آصف علی زرداری کو بالآخر ایسے مقدمات میں الجھانا ہے جن سے نجات قطعی ناممکن ہو۔ اس کے بعد کیا ہوگا یہ معاملہ میںآصف زرداری اور ان سے ’’محبت‘‘ میں مبتلا دائمی حکمرانی کا حق واختیار رکھنے والے اداروں میں بیٹھے بااعتماد افراد پر چھوڑ دیتا ہوں۔
ویسے بھی ان دنوں ذہنوں کو مفلوج کرنے کے لئے ایک لفظ ایجاد ہوا ہے ’’سہولت کار‘‘۔پاکستان کے عوام سے منتخب ہوئی ’’سب پر بالادست پارلیمان‘‘ میں موجود تمام جماعتوں نے یک جا ہوکر اس لفظ کو تحفظِ پاکستان کے نام پر بنائے قانون میں برضاورغبت شامل کیا۔ اس قانون کی حمایت حقوقِ انسانی کے اپنے تئیں عظیم ترین محافظ چودھری اعتزاز احسن نے بھی کی اور روتے ہوئے اس کی منظوری کے لئے رضا ربانی بھی اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
اب چونکہ ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردوں کے لئے طبی سہولیات کا بندوبست کرنے کا الزا م باقاعدہ ایک ایف آئی آر کے ذریعے لگادیا گیا ہے تو مجھ ایسے پیدائشی بزدل اور دو ٹکے کے صحافی کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
اس ملک پر دائمی حکمرانی کا حق واختیار رکھنے والے اداروں میں بیٹھا کوئی افسر میری بیہودہ باتوں سے اس شبے میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ میں شاید ڈاکٹر عاصم کے بارے میں ہمدردی کے جذبات رکھتا ہوں۔ یہ شبہ مجھے بھی ’’سہولت کاروں‘‘ کی فہرست میں ڈال سکتا ہے۔ لہذا اپنے بچنے کی فکر جھٹ پٹ کرنا ہوگی۔
ویسے بھی ان دنوں مجھے تو چکوال میں پاکستان مسلم لیگ نون کے مقامی صدر نے اپنے رزق کے بارے میں پریشان کررکھا ہے۔ منگل کی رات اپنے ٹی وی پروگرام میں کچھ گستاخانہ کلمات میرے منہ سے خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس کے بارے میں نکل گئے تھے۔
مسلم لیگ کے اس وفادارمقامی صدر کی چکوال میں کیبل ٹی وی کے کاروبار پر مکمل اجارہ داری ہے۔ خادم اعلیٰ سے اپنی وفا ثابت کرنے کے جنون میں مبتلا اس پاٹے خان نے اب فیصلہ کیا ہے کہ چکوال میں مقیم ناظرین کو میری منحوس صورت کسی ٹی وی سکرین پر کسی صورت نظر نہ آئے۔ ان سے معافی کے حصول کے واسطے ڈھونڈ رہا ہوں۔ شاید سردار غلام عباس سے رجوع کرنا پڑے جو کپتان کے ساتھ کئی ماہ تک فلرٹ کرنے کے بعد چودھری سرور کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب پاکستان مسلم لیگ نون کی حقانیت پر ایمان لانے کو تیار بیٹھے ہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024