بلوچستان میں پولیس اہلکاروں کے دفاتر پر دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ بہت دکھ ہوا مگر اب یہ دکھ بہت ہو گئے ہیں۔ یہ روٹین کی ایک خبر کی طرح لوگوں کے لئے زیادہ اہم نہیں ہے۔ جو حملے کی زد میں آئے صرف اُن کے لئے اہم ہے۔
ہمارا میڈیا اسے بزدلانہ کارروائی قرار دے کر بار بار اس کا ذکر کرتا ہے۔ ہر بار لگتا ہے یہ کوئی نیا واقعہ ہے۔ مگر یہ پرانے کا تسلسل ہے۔ سیاستدان اور حکمران مذمتی بیان دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ وہ ہر بار دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹنے کا اعلان کرتے ہیں اور بس۔ پھر اس کے بعد کچھ نہیں کرتے۔ کچھ دنوں کے بعد ایسا واقعہ پھر ہو جاتا ہے اور پھر سیاستدان اور حکمران وہی بیان دے دیتے ہیں جو شاید پہلے سے تیار پڑا ہوتا ہے۔ کسی بیان پر نواز شریف کے دستخط نہیں ہوتے۔
یہ کھلا حملہ بلکہ کھلم کھلا حملہ ہوتا ہے اور بار بار ہوتا ہے مگر ہم اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہیں تو پھر دلیرانہ کارروائی کیا ہے۔ دشمن تو اپنی کارروائی کو بہادری قرار دیتے ہیں۔ اپنی دلیرانہ کارروائی تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ ہمیں خبر ہی نہیں کہ دلیرانہ کارروائی کیا ہوتی ہے۔ ہم سنتے چلے آرہے ہیں اور وہ کہتے چلے آرہے ہیں۔ نہ ہم تھکتے ہیں نہ وہ تھکتے ہیں اور نہ ہی یہ کارروائیاں کرنے والے تھکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے تو پچھلے دنوں ایک بہت دلیرانہ بیان دیا کہ سب کارروائیاں بلوچستان میں پاک فوج خود کروا رہی ہے۔ ظاہر ہے ہماری کارروائی دلیرانہ ہی ہو گی؟ حضرت مولانا سے کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کے پاس اس کے ثبوت کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ پاک فوج نے بھی نہ پوچھا۔ حکومت نے تو پوچھنا ہی نہ تھا۔
بلوچستان میں بہت ہی المناک واقعے کے لئے ایک میڈیا والے نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا تاثر ہے؟ میں نے کہا کہ یہ واقعات اتنے تسلسل سے اور اتنی جلدی جلدی ہو رہے ہیں کہ میں کوئی تاثر قائم کرنے سے قاصر ہوں؟۔
بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے معاملات میں بھارت مداخلت کر رہا ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے کبھی بھارت کا نام نہیں لیا۔ بھارت میں ایسے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لمحے میں بھارت واقعے کی کسی قسم کی تحقیقات سے پہلے ہی پاکستان پر الزام لگا دیتا ہے اور اس کی تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی مکمل ہو جاتی ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ پاکستان اتنا ہی طاقتور ملک ہے اور واقعات کے لئے ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے کہ پاکستان کے اداروں نے ابھی سوچا ہی نہیں ہوتا اور واقعہ ہو جاتا ہے۔ پٹھان کوٹ کے واقعے کے لئے بے چارے پاکستانی پٹھانوں کو خبر ہی نہیں اور کہا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ تم نے کیا ہے۔ ہم لاکھ کہیں کہ یہ بات بھارت کے ذریعے ہمیں پتہ چل رہی ہے مگر انہیں اصرار ہوتا ہے کہ تمہیں پتہ ہے یا پتہ نہیں ہے۔ جو کچھ بھارت میں ہوا ہے تم نے کیا ہے۔
نواز شریف نے دہشت گردی کے واقعات کے لئے بھارت کا نام ہی نہیں لیا۔ نواز شریف نے کبھی مودی کا نام نہیں لیا اور نہ کبھی اپنے لئے ”مودی کا یار“ کے نعرے سے کچھ برا محسوس کیا ہے۔ اس کے بعد بھی آزاد کشمیر کا انتخاب جیت لیا جاتا ہے اور پنجاب میں جتنے ضمنی الیکشن ہوتے ہیں ان سب میں بھی کامیابی ہوتی ہے۔ مودی کی یاری کو کامیابی کی ایک دلیل سمجھا جاتا ہے؟
بلوچستان سے ایک بھارتی کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد ایک لمبی خاموشی۔ نواز شریف کے منہ سے اس بھارتی جاسوس کا نام بھی نہیں نکلا۔ انہوں نے اس بھارتی کی گرفتاری کے حوالے سے کسی قسم کا بیان نہیں دیا۔ ایک اطلاع ہے دروغ بر گردنِ راوی۔ اس سلسلے میں بھارتی جاسوس کے حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں اور بھارتی جاسوس کے خلاف کوئی ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی گئی۔ ظاہر ہے بلوچستان میں ایک بھارتی جاسوس تو نہیں تھا۔ یہ تو پورا نیٹ ورک ہو گا۔
یہ جو دہشت گردی کا سانحہ ابھی ابھی ہوا ہے یہ بیرونی مداخلت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ کراچی میں تو رینجرز نے بدامنی اور پاکستان دشمن کارروائیوں پر قابو پا لیا ہے جبکہ کئی بڑی شخصیتوں کی پاکستان مخالف نعرے بازی اور بھارتی ”را“ کے ساتھ روابط کے اعتراف کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
کراچی میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور مخالفانہ وارداتوں میں کمی تو ہوئی ہے مگر شاید پاکستان دشمنوں نے بلوچستان کا رُخ کر لیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس صورتحال پر بھی کنٹرول کر لیا جائے گا۔ مگر ہماری سفارتی پوزیشن اس حوالے سے بہت کمزور ہے۔ اتنے نقصان کے باوجود ہم اپنے دشمن کو کمزور نہیں کر پارہے!
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024