اماں شاہدہ اتنی بڑی ورکر تھی‘ اتنی مخلص اتنی کمٹڈ اتنی وفادار اتنی غریب مگر اتنی خوددار تھی کہ نواز شریف بھی اسے اماں شاہدہ کہتے تھے۔ کیا اب نوازشریف کو یاد ہے کہ اماں شاہدہ بھی کوئی مسلم لیگی اور ہماری سچی ساتھی خاتون تھی۔ وہ عورت ہوتے ہوئے گیارہ دفعہ جیل گئیں۔ ہر کوئی چھوٹا بڑا اماں شاہدہ کہتا ۔ ان سے بڑی عمر کے لوگ بھی انہیں اماں شاہدہ کہتے تھے۔
مجھے ایک دل والی اور وفا حیا والی ایم پی اے عائشہ جاوید نے بتایا کہ اماں شاہدہ فوت ہو گئی ہے اور نواز شریف کو بتا رہی ہوں کہ ان کی اماں شاہدہ فوت ہو گئی ہے۔ میں جو اماں شاہدہ سے بہت محبت کرتا تھا بہت عزت کرتا تھا وہ میرے ساتھ بہت شفقت کرتی اور خاص بچوں کی طرح میرا خیال کرتی۔ عائشہ جاوید بھی اماں شاہدہ کے بہت قریب تھی۔ وہ میرے ساتھ بھی اماں شاہدہ سے رابطے میں خصوصی طور پر موجود رہتی تھی اور ان کی وفات کی خبر بھی مجھے عائشہ جاوید نے بتائی۔ میں اس کا شکر گزار ہوں میں اکیلا رو رہا ہوں .... عائشہ جاوید سے مل کر رونا چاہتا ہوں۔
نواز شریف نے اپنی اماں شاہدہ کے لیے کبھی سوچا کہ وہ کس حال میں رہتی ہے اور وہ کس بے بسی میں مر گئی ہے۔ پھر بھی وہ مسلم لیگی تھی۔ اس کے ہاتھ میں مسلم لیگ کا جھنڈا تھا۔ اسے پاکستانی جھنڈے میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہیے تھا۔ اس کے جنازے میں نواز شریف شہباز شریف اور حمزہ شریف کو ہونا چاہیے۔ اماں شاہدہ کو قبر میں نواز شریف خود اتارتے۔ اماں شاہدہ کو اپنے سیاسی بیٹوں کو آخری سفر پر بھیجنا چاہیے۔
مجھے اماں شاہدہ کی بہو قمر بیٹی نے بتایا کہ انہوں نے جمعرات کو جان دی۔ بڑے صبر سے بیماری اور تکلیف کا مقابلہ کیا۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا ورنہ میں خود ان کی خدمت میں حاضری دیتا مگر بڑے بڑے لوگوں میں سے کوئی ان کے گھر نہیں پہنچا۔ جب اماں شاہدہ زندہ تھی تو کسی تقریب میں صرف اماں شاہدہ ہوتی۔ سب کی توجہ ان کی طرف ہوتی۔ ساری تقریب ان کی توجہ اور ہدایت کے مطابق ہوتی۔
مجھے ان کی بہو قمر نے بتایا کہ کوئی بھی چھوٹا بڑا آدمی ہمارے گھر نہیں آیا۔ یہ بہت بے حسی اور خود غرضی ہے۔ جب اماں کی ضرورت ہوتی ہے تو بچے سب کچھ کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ میں اماں شاہدہ کو سلام کرتا ہوں۔ دوست کی ماں تھی بلکہ سب کی اماں تھی۔ اماں شاہدہ ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی ایسی شخصیت نہیں کہ جس کے لیے اماں کا لفظ اس کے نام کا حصہ بن گیا ہو۔
ہمارے پاس مادر ملت ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا نام فاطمہ جناح تھا۔ مادر ملت کا لقب انہیں محبوب و مرشد مجید نظامی نے دیا تھا۔ پھر یہ زبان زد عام ہو گیا۔ اماں شاہدہ تو خود بخود اماں شاہدہ بن گئیں۔ ہم سب چھوٹے بڑے انہیں اماں شاہدہ کہہ کر پکارنے لگے۔
میں بڑے درد سے نواز شریف سے پوچھتا ہوں کہ انہیں کبھی اماں شاہدہ کا خیال آیا؟ وہ ذاتی طور پر مینار پاکستان کے قریب ان کے گھر جائیں۔ آج کل نواز شریف بڑی مشکل میں ہیں۔ ان سے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کے جھوٹ کا الزام زبان زد عام ہے۔ مگر میں یہاں یہ بات برملا کہنا چاہتا ہوں کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔ انہیں سپریم کورٹ کی طرف سے جو بات بالواسطہ طور پر کہی گئی ہے وہ یہی ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ اگر سپریم کورٹ براہ راست بھی انہیں استعفیٰ دینے کے لیے کہتی تو وہ پھر بھی استعفیٰ نہ دیتے۔ سپریم کورٹ کو بھی اب اپنے فیصلے کرنا آ گئے ہیں جس کا جو بھی جیسا مطلب نکال لے نکال سکتا ہے۔ پانامہ لیکس کے بارے میں پوری عوام منتظر تھی کہ سپریم کورٹ نواز شریف کے جانے کے لیے فیصلہ صادر کریں گے مگر ہم کو مغالطوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ پہلے لوگ فیصلوں کا انتظار کرتے تھے اب فیصلوں پر اعتبار ہی نہیں کرتے۔ ہر آدمی اپنی مرضی کا مطلب نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
گوجرانوالہ کے عہد جدید میں ایک ہی شخص کی ادبی تخلیقی طور پر پہچان ہے اور وہ جان کاشمیری ہے۔ کاشمیری ہو کر اس نے گوجرانوالہ کا نام بلند کیا ہے وہ بڑا محنتی آدمی ہے۔
اسی کے انداز زیست کا ایک اور آدمی سرگودھا کا ہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید فنافی الادب ہے۔ اس نے اصل میں سرگودھا کو شعر و ادب کی دنیا میں زندہ رکھا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید کا نام تو ادبی سیاست کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ اصل کام سرگودھا میں ڈاکٹر ہارون الرشید نے کیا ہے۔ صرف اقبال کے حوالے سے اس نے چھ کتابیں لکھی ہیں۔ اتنا کام تو کوئی جن ہی کر سکتا ہے یا کوئی منتظم .... چھ سات آدمی مل کر یہ کام کر سکتے ہیں۔ ہارون الرشید نے اجتماعی اور عوامی کام کیا ہے۔ جان کاشمیری نے ذاتی اور تخلیقی کام کیا ہے۔ دونوں میں کسی کا کام کسی سے کم نہیں ہے۔ میں دونوں دوستوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں ذرا تفصیل سے دونوں دوستوں پر نظر ڈالتا ہوں۔ جان کاشمیری کی اعتراف‘ تدوین‘ ٹیس‘ ث ثمر پہلے چھپ چکی ہیں۔ اس کے بعد دس کتابیں بیک وقت شائع ہوئی ہیں۔ جنت میں خودکشی‘ چاند رات والی بات‘ حیرت سے آگے‘ خلوت کے بعد‘ دوزخ میں آب کوثر‘ ڈوبتے ہاتھ کی فریاد‘ ذرا سی بات‘ روئے غزل‘ زمانے کی چھوڑو‘ ژرف نگاہی‘ آپ سے گذارش ہے کہ آپ بھی بیک وقت یہ کتابیں پڑھیں تو آپ کو مزا آئے گا۔
اس کے علاوہ سرگودھا سے ادبی سرگرمیوں کا ماہر اور ماہر اقبال شاعر اور ادیب ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے اقبالیات کے حوالے سے چھ کتابیں شائع کی ہیں۔ ذخیرہ اقبال‘ مکاتیب اقبال‘ بہار اقبال‘ موضوعاتی کلام اقبال‘ بیت بازی کلام اقبال‘ نویرہ اقبال‘ اقبال سے عشق کرنے والے اور اقبال کو پڑھنے والے ان کتب سے استفادہ کریں گے تو انہیں بڑا فائدہ ہو گا۔ حروف تہجی کے اعتبار سے یعنی الف سے ی تک ہزاروں اشعار اکٹھے کر دیے گئے ہیں جن سے طلبہ و طالبات بہت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ جان کاشمیری نے عمومی شاعری کے حوالے سے یہ کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ اقبال کے لیے تحقیق کرنے والے لوگوں کے لیے بھی دوسری کتابوں میں بہت مفید مواد موجود ہے۔ موضوعاتی کلام اقبال کے لیے مختلف موضوعات کے حوالے سے اشعار جمع کیے گئے ہیں۔ یہ خاصا محنت طلب کام کرنے والے ا آدمی ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اور جان کاشمیری ہیں۔ دونوں کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملنا چاہیے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024