مائنس ون فارمولہ کیوں کر ممکن ہے جبکہ اس جماعت کا نام ہی مسلم لیگ ن ہے یعنی مسلم لیگ نوازشریف۔ووٹ بینک نواز شریف کا ہے، شہباز شریف تو خادم کہلاتے ہیں۔ کاروبار چھوٹا بھائی دیکھتا تھا اور بڑا بھائی شہزادہ تھا۔شہزادے کو آج اپوزیشن بادشاہ کا نام دیتی ہے۔ میاں نواز شریف کا طرز زندگی سیاست سے پہلے بھی شہزادوں جیسا تھا۔نواز شریف والد کے منظور نظر بیٹے تھے۔قسمت کے اعتبار سے مقدر کے سکندر ثابت ہوئے۔ چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف نے محنت اور کام سے نام اور مقام بنایا۔ جائیداد کے معاملہ میں والد اور بڑے بھائی کے سامنے آمین کی۔ سیاست میں بھی بھائی صاحب کے سامنے سر خم رکھا۔ جے آئی ٹی نے بھائی صاحب کے اثاثوں سے متعلق پوچھ گچھ کی تو والد کی وراثت کی تقسیم کے کچھ معاملات سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جے آئی ٹی اور ناقدین کا اعتراض ہے کہ والد کی پوتوں کے نام رقم کی منتقلی اور دیگر کاروباری معاملات سے میاں شہباز شریف کیوں کر لا علم ہو سکتے ہیں۔ یقیناً ہو سکتے ہیں۔ میاں شریف مرحوم کا معاملہ ہی نہیں عام مشاہدہ ہے کہ اکثر خاندانوں میں جائیداد اور کاروبار سے متعلق کئی ایسے فیصلے ہوتے ہیں جن کا سگی اولاد کو والدین کی موت کے بعد علم ہوتا ہے۔اولاد میں بھی تمام بچوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔
والدین کی مرضی ہے وہ جسے مناسب سمجھیں اپنی وراثت منتقل کردیں۔کچھ خاندانوں میں والدین کے فیصلوں پر امین کی جاتی ہے اور کچھ میں بہن بھائی سلام دعا سے بھی جاتے ہیں۔ میاں شریف مرحوم نے لندن اور دبئی میں پوتوں کے نام جو کچھ بھی جس طریقے سے منتقل کیا۔ آج ان کے حلق کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کے غیر ملکوں میں اثاثوں کا ذکر ملا اور نہ ہی والد اور دادا کی کوئی جائیداد کی خفیہ و مبینہ منتقلی کا کیس سامنے آسکا۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو میاں شہباز شریف نے پنجاب میں کام کیے ہیں۔ کرپشن ہے تو لگادکھائی بھی دیتا ہے۔ غیر متعصبانہ اور غیر جانبدارانہ سوچ کا یہی تقاضہ ہے کہ سیاست کے میدان میں سب کو ایک قطار میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کر لینا چاہئے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن موروثیت سے نجات نہیں پا سکتیں۔ بھٹو کی بیٹی کو بھٹو کے عشق میں ووٹ ملتے رہے اور زرداری کو بھٹو کی بیٹی کے ووٹ ملے۔ باپ بیٹی دونوں کا قتل ہوا اور عشق کے ووٹ تعزیت کے ووٹوں میں تبدیل ہو گئے۔مسلم لیگ ن کی قیادت میاں نواز شریف کو خدا سلامت رکھے۔ یہاں معاملہ ہمدردی اور عشق کا نہیں ۔ بیگم کلثوم نواز میدان سیاست میں قدم رکھیں تو موجودہ سیاسی تناظر میں ان کا ویلکم نہیں ہو گا۔مسلم لیگیوں میں ویسے بھی معاملہ پیپلز پارٹی کے اندھے عشق جیسا نہیں۔ ان میں مفادات عقیدت محبت پر غالب ہیں۔مسلم لیگی ووٹر بھٹو کا جیالا نہیں جبکہ جیالے بھی اب دل والے نہیں رہے۔ پیپلز پارٹی میں بھی غریب عاشقوں کا دور جا چکا جبکہ مسلم لیگ ن خود سوزی والے عاشقوں سے ہمیشہ محروم رہی ہے۔ یہاں زیادہ مفادات کا کاروبار ہے۔ جب بھی میاں نواز شریف پر برا وقت آیا مفاد پرستی نے رنگ دکھایا۔ پارٹی بکھر گئی۔ مسلم لیگ ن کا نام ہی جب نواز شریف سے منسوب ہے تو مائنس ون فارمولہ کیوں کر کامیاب ہو سکتا ہے جبکہ ووٹ بینک بھی میاں نواز شریف کا ہے۔ البتہ اب وقت مرضی کے خلاف فیصلے کرانے پر مجبور کرے گا۔ مائنس ون فارمولہ چوائس نہیں مجبوری بن گیا ہے اور مجبوری میں کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ موجودہ سیاسی تناظر میں میاں نواز شریف کو پارٹی اور خاندانی سیاست بچانے کے لیے مسلم لیگ ن کو مسلم لیگ ش بنانا پڑا تو کوئی دوسری چوائس نہیں ہو گی۔ عدالتی لڑائی میں حکومت کو اگلے الیکشن تک کھینچا جا سکتا ہے لیکن نواز شریف کی وزارت اعظمی کو کھینچنا مزید ہزیمت و ندامت اور انتشار کا باعث بنے گا۔سیاست ہی کرنا تھی تو جے آئی ٹی تشکیل دینے سے پہلے اسمبلیاں توڑ دیتے تا کہ بھرم رہ جاتا۔ اب تمام پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے لہذا قیادت پل بنانے والے بھائی کے حوالے کر کے سیاست اور پارٹی دونوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024