خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ کبھی بے چارے مردوں کا بھی دن منایا جائے۔ عورتوں کے مختلف اجلاس میں مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ عورتوں کا دن کامیاب کرنے کے لئے مرد حاضر رہتے ہیں بلکہ حاضر جناب رہتے ہیں۔
ایک اجلاس میں بہت اچھی خاتون معروف شاعرہ آسناتھ کنول نے عورتوں کے لئے خصوصی تقریب میں مجھے بلایا تھا۔ یہ ایک شاندار تقریب تھی۔ صرف عورتوں کا مشاعرہ بھی تھا۔
صدارت ڈاکٹر شہناز مزمل نے کی۔ مہمان خصوصی آسناتھ کنول تھی۔ رخشندہ نوید بھی مہمان خصوصی تھی۔ آسناتھ کنول شہناز مزمل پروین سجل رخشندہ نوید مسرت کلانچوی زبیدہ حیدر زیبی نیلم احمد بشیر بینا گوئندی منور سلطانہ بٹ سفینہ چودھری درنجف زیبی نے کلام سنایا۔ روبینہ جیلانی نے انگریزی میں نظم سنائی۔ اس کے بعد شام غزل میں موسیقی کا پروگرام تھا۔ یہاں نیلم احمد بشیر نے بہت اچھا گیت گاکے سنایا۔ اچھی بات یہ تھی کہ اتنی بارش میں بہت خواتین آ گئیں مرد بھی کچھ کم نہ تھے۔ بہت بھرپور ماحول رہا۔ آسناتھ کنول کے ایک قطعے پر بہت داد ملی۔ ان سے بار بار یہ اشعار سنانے کی فرمائش کی گئی۔
آسناتھ کنول کا قطعہ سنئے۔
ہواؤں میں یہ سرگوشی گھُلی ہے
کہیں احساس کی کھڑکی کھُلی ہے
کسی نے حیرتیں تقسیم کی ہیں
کوئی خوشبو بکھرنے پر تُلی ہے
مال روڈ پر آتے ہوئے کئی بینر دیکھے جن میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے اعلانات تھے۔ کہیں بھی پاکستانی نامور خواتین کا ذکر نہ تھا۔ حتیٰ کہ مادر ملت کا نام بھی کہیں نہ تھا۔ مادر ملت کا خطاب انہیں مرشد و محبوب مجید نظامی نے دیا تھا۔ انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے دفتر کے آگے بڑے خوبصورت پارک کو مادر ملت پارک کا نام دیا تھا جو سارے پاکستان میں معروف ہو گیا۔ 2003ء میں نظامی صاحب نے مادر ملت کے حوالے سے صد سالہ یوم ولادت کے حوالے سے جشن منایا اور 2003ء کو مادر ملت کے سال کے طور پر منایا۔ مادر ملت کے بارے میں 49 کتابیں لکھی گئیں۔ شاہد رشید کی کتاب ’’محسنۂ ملت‘‘ کو پہلا انعام دیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب میں یہ انعام حاصل کیا گیا۔ اب ہر سال مادر ملت کی برسی کے علاوہ ان کی سالگرہ کا دن بھی منایا جاتا ہے۔
جب بڑے بڑے سیاستدان پیچھے ہٹ گئے تھے تو مادر ملت نے جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑا۔ پورے ملک میں ایک جمہوری اور قومی جذبے کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ پھر سب لوگوں نے محسوس کیا کہ مادر ملت کو دھاندلی سے ہرایا گیا ہے۔ اگر منصفانہ انتخابات کے ذریعے مادر ملت جیت گئی ہوتیں تو بس یہی جملہ تبصرے کے لئے کافی ہے کہ پھر پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ مختلف ہوتا۔ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کی ذمہ داری صدر ایوب اور جنرل یحییٰ خان کے سر ہے۔ حیرت ہے کہ مشرقی پاکستان میں مادر ملت جیت گئی تھیں۔
یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر آج خواتین کے عالمی دن کو مقامی دن بنانے کے لئے مادر ملت کا تذکرہ ضروری ہے۔ پاکستان میں کوئی قائداعظم کا ثانی نہیں ہے تو مادر ملت کا بھی کوئی ثانی نہیں ہے۔
تحریک پاکستان میں کردار ادا کرنے والی عظیم خواتین کے نام شاہد رشید کی کتاب محسنۂ ملت میں ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے قیام بعد پاکستان کی ترقی اور بہبود کے لئے بھی بہت کام کیا۔ کچھ خواتین کے نام یہ ہیں۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ جن کے شوہر اکرام اللہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا گیا۔ یہ اکرام اللہ ہیں شائستہ اکرام اللہ کے شوہر‘ بیگم رعنا لیاقت علی خان‘ صاحبزادی محمودہ بیگم‘ بیگم سلمیٰ تصدق حسین‘ بیگم سعیدہ قاضی عیسیٰ‘ بیگم عطیہ فیضی‘ بیگم زری سرفراز‘ بیگم نصرت عبداللہ ہارون‘ بیگم قمر اصفہانی‘ بیگم خالدہ منیر الدین چغتائی‘ مس کنیز فاطمہ‘ لیڈی محمدشفیع‘ سردار بیگم‘ بیگم شمیم جالندھری‘ فاطمہ صغریٰ بیگم‘ بیگم کلثوم سیف اللہ‘ بیگم گیتی آرا۔ اس کے علاوہ کچھ نام اور بھی ہیں مگر میں حیران ہوں کہ اس فہرست میں بیگم ثریا خورشید کا نام نہیں ہے ان کے شوہر کے ایچ خورشید آزاد کشمیر کے صدر تھے۔ وہ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے۔ ثریا خورشید نے آزادیٔ کشمیر کے لئے بہت کام کیا اور پاکستان کے لئے بھی بہت خدمات سرانجام دیں۔
پاکستان میں خواتین کی نئی نسل میں ذوق و شوق کی ایک بہار ہے۔ ان میں چند خواتین ایسی ہیں جو حیران کر دینے والی باتیں کرتی ہیں۔ ایسی ایک خاتون ایک دور آباد قصبے چونڈہ کی رہنے والی ہیں۔ وہاں سے بھارتی سرحد بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے ایم اے انگریزی کیا ہے مگر گاؤں نہیں چھوڑا۔ شکیلہ جبیں ان کا نام ہے ان کے بھائی برادرم اخلاق صاحب نے ان کا شعری مجموعہ مجھے دیا ہے۔ میں ان کے اشعار پھر آپ کو سناؤں گا۔ وہ گفتگو کرنے میں اتنی تخلیقی ہیں کہ دوسرا آدمی صرف سننے کی خواہش میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اپنے شوہر نوازشریف کی قید و بند کے دوران بیگم کلثوم نواز نے بے مثال سیاسی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی جدوجہد کو تحریک بنا دیا۔ تب بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف زندہ تھے۔ اس کے بعد بیگم کلثوم نواز اپنے گھر میں واپس چلی گئیں۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔ اب ان کی صاحبزادی مریم نواز سیاست میں ایک قابل ذکر کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ مریم صفدر اور مریم نواز کے درمیان فرق کو پہچان گئی ہیں اور یہ کمال ہے؟ اپنی فیملی کے سیاسی ورثے اور نام کو لے کر آگے بڑھنے کی بہت آرزو ان کے دل میں ہے۔ شاعری میں ہر خاتون کو پروین شاکر بننے کا شوق ہے۔ یہ شوق بھی کسی مثبت بے قراری کی سرشاری میں بدلنے کی تمنا جیسا ہے۔