آج یہ کالم لکھتے ہوئے میں PSL-2کے فائنل کو لاہور میں ہر صورت منعقد کرنے والے فیصلے کے تناظر میں زور محض اس بات پر دینا چاہ رہا تھا کہ ریاست اگر پنجابی محاورے والے ”اپنی آئی“ پر آجائے تو بہت کچھ کر سکتی ہے۔ اصل بات ارادے (Will)کی ہے۔ کسی بھی معاملے کے بارے میں تمام ریاستی ادارے یکسو ہو کر کوئی واضح فیصلہ کر لیں تو اس کا مو¿ثر اطلاق ہو کر رہتا ہے۔
آج کا دور میڈیا Hypeکا دور ہے۔صنعتی انقلاب سے پہلے تہوارصرف مذہبی بنیادوں پر ہوا کرتے تھے۔ عیدالفطر اس کی ایک مثال ہے۔ قربانی اور ربّ کے ہرحکم پر بلاچوں چراں سرنگوں کرنے کے جذبے کو اجتماعی انداز میں اجاگر کرنے کے لئے عیدالاضحی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ مذہبی حوالوں سے الگ جو تہوارہیں ان کا تعلق موسموں کے تغیر سے ہے۔ یہ تغیر شہروں میں مقید ہوئے جدید انسان کے لئے اس اہمیت کا ہرگز حامل نہیں ہوتا جو زمین سے رزق کمانے والا کسان محسوس کرتا ہے۔
نو روز اسی حوالے سے درحقیقت بہار کا استقبال ہے۔ ترکی، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیاءکے تمام ممالک اسے بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ اگرچہ اس تہوار کی کچھ رسومات ایسی بھی ہیں جو پا رسی مذہب سے مستعارلی گئی ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ہوئی ECOکے مشترکہ اعلامیے میں اس کے باوجود اس سال نوروز کو ”بین الاقوامی“ یکجہتی کے دن کے طورپر منانے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔
ہماری بسنت بھی درحقیقت ”پالااُڑنت“ کی وجہ سے دلوں میں امڈتی اُمنگوں کا اظہار ہوا کرتی تھی۔ سرسوں کے پھول کی مسکراتی پیلاہٹ اس کا نمایاں رنگ تھا۔ دلّی کے خواجہ نظام الدین کی طبیعت کچھ دنوں تک مضمحل اور اداس رہی تو بسنت کا موسم آگیا۔امیر خسرو نے اپنی پگڑی میں سرسوں کے پھول سجاکر وجد میں رقص کرنا شروع کردیا۔ خواجہ مسکرادئیے۔ وہ مسکرائے تو بسنت دہلی کے مسلمانوں کا تہوار بن گئی۔ آج بھی اس شہر میں یہ تہوار ان ہی سے منسوب ہے اور اس دن زیادہ رونق مسلمانوں کے محلوں ہی میں نظر آتی ہے۔
لاہور کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ بسنت کو مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کے درباریوں نے سرکاری سطح پر منانا شروع کردیا۔ قیامِ پاکستان کے کئی برس گزرجانے کے باوجود بھی لاہوری مگر بسنت کو موسم سے جڑے تہوار کی صورت ہی مناتے رہے۔ 80 کی دہائی میں لیکن ہمارے ہاں ”خالص اسلام“ کی تلاش شروع ہوگئی۔ اسے تلاش کرتے ہوئے بسنت کی ”بدعتی“ جہتوں کو بھی ڈھونڈ نکالا گیا۔ بسنت کی ملامت شاید مو¿ثر نہ ہوپاتی۔ چند ظالم منافع خوروں نے مگر پتنگ اڑانے کے لئے خونی ڈور ایجاد کرلی۔ اس کی وجہ سے کئی جانیں حادثادتی اموات کا شکار ہوئیں تو اس پر پابندی کے مطالبے میں شدت آئی۔
شہباز شریف صاب کو ویسے ہی خود کو ”گڈگورننس“ کی علامت ثابت کرنے کا جنون لاحق ہے۔اپنے اس جنون کو وہ ریاستی قوت واختیار کے بھرپور استعمال کے ذریعے خونی ڈور کے خاتمے کے لئے بھی استعمال کرسکتے تھے۔اس ڈور کی فراہمی کو ناممکن بناکر لاہور کے چند پارک بسنت کے روز پتنگیں اُڑانے کے لئے مختص کئے جاسکتے تھے۔ ان پارکوں کے Radiusمیں دن کے چند گھنٹوں کے لئے موٹرسائیکل چلانے پر مکمل پابندی بھی عائد کی جا سکتی تھی۔ لاہور میں PSL-2کے فائنل کو محفوظ بنانے کے لئے قذافی اسٹیڈیم کے گردونواح میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے ابھی سے کئی کلومیٹر کوگھیرتا حصار قائم کردیا گیا ہے۔ بسنت کے لئے چند پارکوں کے گرد موٹرسائیکل چلانے پر پابندی تو محض کچھ گھنٹوں کی بات ہوتی۔ بات مگر ارادے(Political Will)کی ہے۔شہباز شریف کی حکومت کو بسنت منانے سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں۔کبھی کبھار میرے وسوسوں بھرے دل میں یہ شک بھی اُبھرتا ہے کہ شاید شہباز صاب کو بسنت اس لئے پسند نہیں کیونکہ جنرل مشرف نے اپنے دور میں اسے لاہور جاکر منانا شروع کر دیا تھا۔ وہ مشرف کی ذات سے جڑے رونق میلے کا احیاءنہیں چاہتے۔
PSL-2کا فائنل اشتہاری اداروں اور ٹی وی میچ براہِ راست دکھانے والے سپورٹس چینلوں کی ایجاد کردہ رونق ہے۔ ہماری خوش قسمتی کہ بسنت کی طرح اس رونق کو ابھی تک ”بدعت“ نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ اگرچہ کرکٹ کا پیدائشی وطن برطانیہ ہے۔ یہ وہاں کی اشرافیہ کا کھیل مانا جاتا تھا۔ پانچ دنوں تک پھیلے اس کے ٹیسٹ میچوں کا اکثر اوقات کوئی نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوتا تھا۔ میچ کا Drawرہنا مگر اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اصل بات کرکٹ تھی جو درحقیقت ایک رویے کا نام تھا۔ اشرافیہ کی بردباری اور نام نہاد اصول پسندی کو اجاگر کرنے والا رویہ جس نے کئی غیر معقول باتوں کو This is not Cricketکہتے ہوئے ان کی مذمت کی طرح بھی ڈالی۔پانچ روز تک کھیلنے کے بعدبھی جیت یا ہار کے تصور سے بے نیازی برداشت اور ہرحال میں مطمئن رہنے کی ایک گہری علامت تھی۔
آسٹریلیا میں لیکن ایک کیری پیکرپیدا ہوگیا۔تھوڑی رونق لگاکر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس اس کے ذہن پر بھی حاوی تھی۔اسے یہ جنون لاحق ہوگیا کہ فٹ بال میچوں کی طرح کرکٹ کے مقابلوں کو بھی ہرصورت ہارنے یا جیتنے کی شکل مل جائے تو ٹی وی سکرینوں پر رونق لگائی جاسکتی ہے۔اشتہارات کی بھرمار۔اس نے یک روزہ کرکٹ کو منفعت بخش کاروبار بنایا۔ یہ Gentlemenکی گیم نہ رہی۔ T-20ہر صورت جیتنے کی وحشت کا حتمی اظہار ہے۔ اس وحشت کو نہایت مہارت سے تہواروں والی رونق بخش دی گئی ہے۔لاہور میں PSL-2کا فائنل کھلاکردراصل ہم اس کی رونق کی بنا پر قائم ہوئے کرکٹ کے عالمی نقشے پر اپنی موجودگی کو ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔ ذاتی طورپر مجھے اس موجودگی کو ثابت کرنے والی کوششوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ خوشی چاہے وہ اشتہاری کمپنیوں کی مہارت کی وجہ سے کتنی ہی کھوکھلی اور وقتی کیوں نہ ہو، ہمارے لوگوں کا حق ہے۔میرے لوگ خوش تو میں بھی خوش۔
اندھی عقیدتوں اور نفرتوں میں بٹے پاکستان میں لیکن PSL-2بھی اب ”سیاسی“ ہوتا نظر آرہا ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس کا فائنل لاہور میں ہر صورت کرواکر نواز شریف کی حکومت اور جماعت اپنی Core Constituency کو خوش کرنا چا رہی ہے۔ اپنی Baseکے صدقے واری جارہی ہے۔ ان کے اصل ”شریک“ ہوتے ہوئے عمران خان اس حوالے سے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ نجم سیٹھی نے بھی کھل کر کہہ دیا ہے کہ غیر ملکی کھلاڑی جن کے لئے عمران خان ایک Legendکی حیثیت رکھتے ہیں صرف اس وجہ سے PSL-2کھیلنے کے لئے لاہور آنے کو تیار نہیں ہورہے کیونکہ اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے عمران خاں نے سکیورٹی کے خدشات کے تناظر میں ان دنوں پاکستان میں فائنل کھلوانے کو ”پاگل پن“ قرار دیا تھا۔ PSL-2کا فائنل اب کئی حوالوں سے کرکٹ کی دو ٹیموں کے درمیان نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے مابین ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس سے جڑی رونق غیر متعلقہ ہوگئی ہے۔سارا قصہ ”سیاسی“ ہوگیا ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024