جب میں خود اس خیال کا حامی ہوں کہ ہمیں دہشت گردی سے ڈر کر گھر نہیں بیٹھ رہنا چاہئے، تو میں کرکٹ میچ کے انعقاد اور ایکو سربراہ کانفرنس کی داد کیوں نہ دوں اور حکومت کے ان دلیرانہ فیصلوں پر تالی کیوں نہ بجاﺅں ایسا نہ کرنا میری بد دیانتی ا ور منافقت پر دلالت کرتا ہے۔
یہاں مجھے اپنی جہالت اور لا علمی کا بھی اعتراف کرنا ہے، اس میں میرا کوئی قصور نہیں، قدرت کی طرف سے ایک معذوری پیش آ گئی ہے کہ آنکھوں میں نقص کی وجہ سے نہ اخبار پڑھا جاسکتا ہے، نہ کوئی کتا ب یا رسالہ، نہ ٹی وی پر کچھ نظر آتا ہے۔ میں دن کے بیس گھنٹے انٹرنیٹ پر صرف کیا کرتا تھا، اب یہ میرے لئے خواب وخیال بن کر رہ گیا ہے، ویسے اس معذوری کا حل موجود ہے اور اس کی تلاش میں دن رات ایک کئے ہوئے ہوں، خدا کرے، میری کوششیں بارآور ثابت ہوں اور میں ایک بار پھر فارم میں آ سکوں ورنہ میں عزت کے ساتھ صحافت سے ریٹائر ہو جاﺅں گا۔ یہ کام تو مطالعے، مشاہدے اورموازنے کے بغیر ہو نہیں سکتا، میں جھک مارنے کا قائل نہیں۔
اب دیکھئے پاکستان میں ایکو کانفرنس ہو رہی ہے، اس کے لئے وزرائے خارجہ پہلے ہی اسلام آباد پہنچ چکے تھے، ان کے پیچھے پیچھے سربراہان مملکت بھی چلے آئے، دارالحکومت میں ایک گلدستہ سجا ہے اور یقین مانئے۔ میں اس احوال سے بالکل بے خبر رہا اور میں نے کل والا کالم لکھ مارا ا ور یہ چھپ بھی گیا، رات گئے مجھے خبریں ملیں تو سخت شرمندگی ہوئی مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
ایکو سربراہ کانفرنس یا ا سے جو بھی نام دے لیں، اس کا انعقاد ایک جرا¿ت مندانہ ا قدام ہے، ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں دہشت گردی کا نیا سونامی تباہی نازل کر رہا ہے اور عوام کے سانس پھول سے گئے ہیں، ساتھ ہی بھارتی وزیراعظم مکمل انتظام کر چکا ہے کہ پاکستان بالکل یکہ و تنہا ہو کر رہ جائے اور نظر بظاہر بھی ہمارا ساتھ نبھانے والا سوائے ایک چین کے اور کوئی ہے بھی نہیں تو وزیراعظم نے یہ جو مسلم سربراہوں کا میلہ لگا دیا ہے، یہ ایک منی اسلامی کانفرنس ضرور ہے۔ ویسے وزیراعظم کے بارے میں پروپیگنڈہ تو یہی کیا جاتا ہے کہ انہیں کسی سے میل جول پسند ہی نہیں۔ وہ تو لندن جانے اور وہاں ہفتہ عشرہ قیام اور شاپنگ کے شوقین ہیں اور بس۔ مگر پانامہ کے کیس میں یہ رازکھلا کہ قطری تو ان کے شیدائی ہیں اور ہر طرح سے ان کا قانونی دفاع کرنے کے لئے تیار، اس سے قبل جب مشرف دور میں وہ ابتلا سے دو چار ہوئے تو لبنان کے حریری نے انہیں سعودی عرب پہنچا دیا جہاں وہ برسوں شاہی مہمان رہے، ابھی ان کی نواسی کی شادی ہوئی تو بھارتی وزیراعظم مودی کابل سے دلی جاتے ہوئے کچھ دیر کے لئے لاہور بھی رکے، ایک مرتبہ کارگل کی جنگ میں خطرناک موڑ آیا تو وہ صدر کلنٹن کے پاس اس روز جا پہنچے جب امریکہ میں یوم آزادی کی چھٹی منائی جا رہی تھی۔یہ سب کچھ کرگزرنے والے نواز شریف کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ غلط ہے کہ وہ کسی سے میل جول پسند نہیں کرتے۔ چینیوں کے ساتھ تو ان کی گاڑھی چھنتی ہے اور ترکی کے صدر تو ہمہ وقت ان کی دسترس میں ہیں۔
بہرحال ایکو کانفرنس کے اطمینان بخش نتائج قوم کے سامنے آئے ہیں ۔
دہشت گردی کے مہیب خطرات کے ہوتے ہوئے جن دوست ممالک کے سربراہان نے پاکستان کا رخ کیا ہے، میں ان کی جرا¿ت رندانہ کو بھی سلام پیش کرتا ہوں ورنہ یہاں تو کسی مارکیٹ میں دھماکہ ہو جائے تو ہمارے ہی لوگ ایک ہفتہ تک ادھر کا رخ نہیں کرتے کہ کہیں دوسرا دھماکہ نہ ہو جائے۔
ایسے ہی وحشت ناک ماحول میں لاہور شہر کرکٹ کی میزبانی بھی کر رہا ہے اور لوگوں میں اس قدر جو ش و خروش ہے کہ چند سو کی ٹکٹ کئی ہزار روپے میں خرید رہے ہیں اور جو بنک ٹکٹیں فروخت کر رہا ہے ا س کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں ، لاہوریے ہمیشہ سے زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، پینسٹھ کی جنگ میں لوگ بھارتی فضائی حملے کے دوران چھتوں پر چڑھ کر بو کاٹا، بو کاٹا کے نعرے لگاتے تھے، انہیں دہشت گرد کیا خوفزدہ کریں گے، واہگہ کی پریڈ میں ایک شام لاشوں کا ڈھیر لگا، اگلی شام بھارت تو پریڈ سے بھاگ گیا مگر پاکستانی شائقین جوق در جوق وہاں پہنچے اور لاہور کے کور کمانڈر بھی ان کے ساتھ تھے۔ پھر تو لاہوریوں کے حوصلہ دیکھنے کے لا ئق تھے، واہگہ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔
پتہ نہیں ویسے کرکٹ میچ لاہور میں ہوتا یا نہ ہوتا مگر دہشت گردوں کا شکریہ جنہوں نے ہمیں چیلنج کیا اور ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ بزدلی کا راستہ ا ختیار نہیں کریںگے۔ اب ہر صورت میں کرکٹ کا میدان سجے گا اور دہشت گردوں کے عزائم ناکام ہوں گے، ان مذموم عزائم کو ناکام ہی ہونا چاہئے۔
اب ایک گزارش منافع خوروںا ور جواری بھائیوں سے۔ لاہوریے کرکٹ کے جنونی ہیں مگر ان کی لوٹ مار نہ کی جائے، ہر کوئی پیسے والا نہیں، کئی تو دو وقت کی روٹی کے لئے دن رات مشقت کرتے ہیں۔ ان سے بارہ بارہ ہزار اینٹھنے کی کسی کو اجازت نہیںہونی چاہئے، جو بنک یہ ٹکٹیں فروخت کر رہا ہے، اس کے خلاف اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو سخت ایکشن لینا چاہئے اور فوری لینا چاہئے،کرکٹ میچ کو صرف کھلاڑی کامیاب نہیںبناتے، اس میں سارے رنگ تو شائقین بھرتے ہیں۔ رونق میلہ وہی لگاتے ہیں، اب ان کا استحصال تو نہ کیا جائے، دوسرے جواری بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ اس کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں، اس میں جوئے کے عنصر سے رنگ میں بھنگ نہ بھریں۔ حکومت پنجاب جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ میچ کروا رہی ہے۔ پنجاب پولیس اپنے ہیرے جیسے افسروں کی جان گنوا چکی ہے، ان جانوں کی قیمت پر جوا نہ کروایا جائے، جوئے کا یہ نہ تو پہلا موقع ہے، نہ آخری، اس لئے اہل لاہور کو ایک اچھا میچ دیکھنے کا موقع دیں۔
کرکٹ میچ اور ایکو کانفرنس دونوں ایونٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کے حوصلے بلند ہیں اور حکومت وقت بھی کسی قیمت پر دہشت گردوں کے سامنے سرنڈر کے لئے تیار نہیں۔