مغرب میں مکئی کی روٹی ہوتی ہے، گندم کی روٹی ہوتی ہے، بیسن کی روٹی ہوتی ہے، چھان بورے کی روٹی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جس روٹی کا ذکر بہت عام ہے وہ ”عزت کی روٹی“ ہے۔ تاہم اس کا ذکر ہی سنتا رہا، کسی کو کھاتے نہیں دیکھا۔ میں ایک مرتبہ لاہور کے بازار حسن مجرا دیکھنے گیا جو طوائف مجرا کر رہی تھی وہ بہت خوبصورت تھی۔ میں نے اس سے پوچھا تم فلموں میں کام کیوں نہیں کرتی؟ اس نے جواب دیا، مجھے فلموں میں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ یہیں عزت کی روٹی دے رہا ہے۔۔۔اقتباس عطا الحق قاسمی۔۔۔ طوائف کی عزت کی روٹی ضیا الحق کی پابندیوں کے باعث بازار حسن سے لاہور کے پوش علاقوں میں منتقل ہو گئی۔ الا ما شا اللہ کچھ صحافی بھی ”عزت کی روٹی“ کمانے کے چکر میں شارٹ کٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ کسی اخبار مےں ایک خبر پر نظر پڑی۔ ”کراچی کے نام نہاد صحافی کے خلاف جعلسازی ثابت ہونے پر عنقریب گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ اس شخص نے ویب سائٹ بنا رکھی ہے جس پر جھوٹی خبریں لگاتا ہے۔ گزشتہ دنوں چیئرمین پی ٹی وی اور شاعر ادیب عطا الحق قاسمی کے خلاف من گھڑت جعلی خط لگا کر سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جس پر ایف آئی اے نے تصدیق کے بعد ملزم کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ بلاشبہ صحافت میں بھی جھول اور دو نمبری چل رہی ہے لیکن بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی خبروں پر بلا تصدیق یقین کر لینا بھی بے ایمانی ہے۔ عزت کی روٹی ذلت کے کاموں سے نہیں مل سکتی۔ بے ایمان اور دو نمبری سے روٹی کمانے سے زیادہ کوٹھے پر بیٹھی طوائف زیادہ عزت دار ہے جو جھوٹ اور دھوکہ نہیں کر رہی۔ اس کا دھندا سب کے سامنے ہے لیکن پیٹھ پیچھے فراڈ منافقت اور دھوکہ دہی کے مرتکب ذلت کی روٹی کے لئے دوزخ کما رہے ہیں۔ بازار حسن لاہور کا ذکر ہوتا ہے لیکن عزت کی روٹی کمانا نہ صرف پاکستان میں مشکل ہو چکا ہے، مغرب میں بھی حالات افسوسناک ہوتے جارہے ہیں۔ بات با زار حسن سے تجاوز کر چکی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے یونان کے حوالے سے ایک انتہائی تکلیف دہ اور چشم کشا انکشاف کیا ہے جو دیگر دنیا کے لئے عبرت کا مقام ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی بدحالی کے باعث یونان کی نوجوان لڑکیاں ایک روٹی کی قیمت کے عوض اپنی عصمت فروخت کر رہی ہیں۔ پاکستان کے ایک پولیس والے سے کسی نے پوچھا کہ کبھی حرام کی روٹی کھائی ہے اس نے کہا کہ ایک بار بادوباراں کا طوفان آیا ہوا تھا، اس روز کوئی سائل نہیں آیا تو گھر جا کے روٹی کھائی تھی۔ پاکستان بھارت کشید گی کے دوران پاکستان کے سینما مالکان نے بھارتی فلمیں چلانا بند کردیں مگر پاکستان میں اکثر سینما مالکان نے عزت اور حق حلال کی روزی کے لئے اپنے سینماﺅں میں پھر سے انڈین فلموں کی نمائش شروع کردی۔ بیروزگاری اور مہنگائی کے مارے عوام کا کہنا ہے کہ جو حکومت عوام کو عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی نہ دے سکے اسے رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر اس حقیقت کو سنجیدگی سے لیا جائے تو پاکستان میں کوئی شخص حکمرانی کا اہل نہیں۔ لاہور جیل میں منشیات فروخت کرنے والی مجرم خواتین سے دوران گفتگو ایک عورت نے بتایا کہ وہ کسی کے ہاں ملازمہ تھی۔ مالکہ روز بے عزتی کرتی تھی۔ دھتکارتی تھی۔ ذلت کی نوکری سے اس نے عزت کی روٹی کا انتخاب کر لیا۔انہی کوٹھیوں میں ان کی اولادوں کو منشیات مہیا کرنے لگی۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024