67 سالہ تاریخ میں زیادہ تر پالہ بحرانوں سے پڑا ہر بحران کے نتیجے میں حکمرانوں کیلئے اسباق تھے لیکن کسی نے بھی ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا عام آدمی رات دن اپنی گفتگو میں ماضی کے اوراق پلٹتا ہے کہ بڑے بڑے آئے اور چلے گئے ایسے بڑوں کے نام لوگوں کی زبانوں پر ازبر ہیں عمران خان بھی حسنی مبارک کا حوالہ دیتے ہیں کبھی کوئی بھٹو کو یاد کرتا تو کوئی شاہ ایران ہو دور کیوں جائیں افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین کے ہاتھوں کتنے حکمران نشانہ عبرت بن گئے حکمران اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ سیاسی بحران کیونکر پیدا ہوتے ہیں گھروں میں تو کسی بات سے ہی شروع ہوتی ہے اور پھر گھر کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اولاد والدین کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا نواز شریف کے تھنک ٹینکوں نے انہیں ضرور بتایا ہو گا کہ طاہر القادری اور عمران خان کا دھرنا کیوں اور کیسے شروع ہوا اس سے پہلے کی تصویر کا دیکھا بھی ضروری ہے کہ 17 جون کو ایسی کون سی ناگزیر مجبوری تھی کہ ماڈل ٹاﺅن کو میدان کارزار بنایا گیا وہ مناظر آج تک ٹیلی کاسٹ ہو رہے ہیں یہ بربریت سے کم تو نہیں مشیروں سے زیادہ تو حکمران خود ذی شعور اور غیر معمولی طور پر سیانے اور دور اندیش ہوتے ہیں طاقتور ہو کر طاقت کے استعمال اور طاقت کے مظاہرے سے اجتناب کرنا بڑائی ہے گولی چل جائے تو پھر کچھ نہیں بچتا حضرت علیؓ نے منہ پر تھوکنے والے پر تلوار ہونے کے باوجود تلوار گرا دی اب ظرف حوصلہ برداشت دنیا میں کوئی مائی کا لال پیش نہیں کر سکا ہم جن ہستیوں کی اتباہ کے دعوے کرتے ہیں لیکن انکے کردار کی ایک کرن بھی اپنانے کو تیار نہیں۔
طاہر القادری اچھے ہیں یا برے سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر انکی وکالت کسی بھی اعتبار سے غلط نہیں دن رات ملک میں آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کے راگ الاپے جاتے ہیں لیکن سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی ایف آئی آر درج کرنے سے خوف نے باز کر رکھا ہے یہ سانحہ فرشتوں یا غیبی مخلوق سے تو رونما نہیں ہوا اقتدار کے نشے میں سرشار لوگوں کا نشہ اترنا تو چاہئیے اس پر کسی کو اعتراض نہیں کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کا سفر جاری رہنا چاہئیے لیکن گھر میں بچوں کے شور و غوغا پر بھی کان دھرنا ضروری ہے کسی بھی گھر کے بچوں کو ساری باتیں مسترد کرنے کے قابل نہیں ہوتیں سابقہ انتخابات میں دھاندلی ایک مصدقہ بات بن چکی ہے انسانی کاموں میں غلطیوں بلکہ سنگین ترین غلطیوں کی گنجائش ہوتی ہے ہر انسان کے ساتھ اس کا ضمیر جڑا ہوا ہے ضمیر ہی اسے حق پر ڈٹا ر کھتا ہے اور ضمیر ہی اسے حق کی پٹری سے اتار کر رسوائی کے سٹیج پر لا کھڑا کرتا ہے رشوت لینے والے حرام کمانے والے زانی بدمعاشوں کو علم ہوتا ہے کہ انکے افعال غلط ہیں لیکن ان کی ضرورتیں انہیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ لفافے قبول کر لیں اور ضمیر کو تھوڑی دیر کیلئے برائے فروخت کر دیں حکومت نے دیر کر دی دھرنا کی آگ جس روز سلگتی شروع ہوئی تھی اسی روز فائر بریگیڈ کا بندوبست ہونا چاہئیے تھا دھرنوں کے پیچھے محرکات کا ہونا بعید ازعقل ہے ان محرکات کو کیوںنہیں سمجھایا گیا میڈیا میں اتنی گفتگو ہوئی ہے کہ ضخیم کتابیں تیار ہو سکتی ہے دھرنوں کے کس کس پہلو کا پورسٹ مارٹم نہیں ہوا غور طلب بات یہ ہے کہ طاہر القادری ہوں یا عمران خان انکی ساری باتیں لامعنی تو نہیں ہیں عوام کی زندگی کی حقیقتیں سب کے سامنے ہیں بجلی کے بلوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے واپڈا کا شاید ہی کوئی اہلکار ایسا ہو جو ناجائز کمائی کا مرتکب نہیں ہو رہا اور بلنگ ایک ملک گیر لعنت ہے پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں کوئی کسی کو منہ نہیں لگاتا لوگ کہاں جائیں کس کے سامنے جا کر روئیں یہی حال تھانوں اور باقی سرکاری دفاتر کا ہے گوورنس کا تو کچومر نکل گیا ہے دھرنوں نے حکومت کی ساکھ ملیا میٹ کیا ہے ہم کس منہ سے دنیا والوں کے سامنے سربلند ہو سکتے ہیں سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی شام ہی کو خادم اعلیٰ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے تو آج یہ نوبت نہ آتی طاہر القادری کے کنٹینر میں دو گورنر جا سکتے ہیں تو ان سے بڑے کیوں نہیں؟
جمہوریت میں خلل ڈالنے والوں کو بخوبی پتا ہے کون کس حد تک سچا ہے محب وطن اور بے لوث ہے دھرنے ہوں یا لڑائیاں افراد اور قوموں کو گراتے ہیں اٹھاتے نہیں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دباﺅ میں آیا ہوا ہے تین وزیر اعلیٰ وزراءاور سابق صدر زرداری چین کی طرف بھاگے کہ کہیں چینی سرمایہ کاروں کا موڈ اور ارادہ نہ بدل جائے کسی بھی گھر میں رات دن لڑائی کی آواز آئے تو محلے دار محتاط ہو جاتے ہیں محلے والوں سے تعلقات کمزور پڑ جاتے ہیں ساکھ گر جاتی اور ہوا اکھڑ جاتی ہے لوگ سوچتے ہیں کہ ملک میں کوئی تو بڑا ہوتا تو فریقین کی اناﺅں کو تالا ڈال کر دھرنوں کے عذاب سے بے گناہوں کو نجات دلا دیتا دھرنے ختم ہونگے تو سب ہی کو احساس ہو گا کہ کسی شیطان نے ایک قوم کا وقت برباد کیا رنجشوں میں اضافہ ہوا معیشت کی دیوار کو کمزور کیا بحران ہوں یا دھرنے انکے اختتام کو دیکھنا چاہئیے کہ اسکے نتیجے میں کونسا منظر نامہ سامنے آیا جمہوریت اور آئین کی پاسداری کی باتیں ہر حکمران کے دور میں کی گئیں لیکن فائدہ کوئی اور اٹھا گیا دھرنے اور بحران بات سے بات کو جنم دیتے ہیں نتیجہ خیز نہیں بناتے ہٹ دھرمی کہیں نہ کہیں تو ضرور ہوتی ہے ملک کی بدقسمتی کے آمریت نے جمہوریت کی شیروانی اور جمہوریت نے آمریت کی شیروانی پہن کر عوام کو دھوکہ دیا جمہوریت میں جب بھی خلل ڈلا خود جمہوریت پسندوں کی ہٹ دھرمی کی بدولت خلل ڈالنے والے بھی سیاست دان ہوتے ہیں اور خلل ڈل جائے تو واویلا کرنیوالے بھی یہی ہوتے ہیں کچھ کو خلل ڈال کر بہت کچھ مل جاتا ہے اور کچھ سب کچھ گنوانے کے خوف سے خلل ڈالنے سے دور رہتے ہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024