28ء مئی… ہمارا قومی دن بطور ’’یوم تکبیر‘‘ ہے سقوط ڈھاکہ کے باوجود جس میں ہمارا جغرافیہ کچھ اپنی نادانیوں اور زیادہ تر ’’اگرتلہ سازش‘‘ کی بنیاد پر بھارت نے توڑ دیا تھا اس فتح کے باوجود بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر کے موجودہ پاکستان کی زندگی پر اپنی قدرت ثابت کرنے کی کوشش کی تھی صدر ایوب خان کے عہد میں ابتدائ‘ بھٹو عہد میں تیز رفتار ایٹمی پیش رفت‘ جنرل ضیاء الحق اور صدر غلام اسحاق خان کی پرعزم قیادت و سرپرستی نے ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کو بھارت کو جواب دینے پر اوالعزم بنائے رکھا۔ ہمارے سیاست دانوں‘ جنرلز‘ صدور اور سائنس دانوں کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت 28 مئی کا یوم تکبیر میسر آیاتھا محترم مجید نظامی جیسے پرعزم کرداروں کی توجہ اور محبت سے وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پانچ ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیاب رہے تھے ہم اپنے قائدین‘ سیاسی فیصلہ سازوں‘ صدور‘ جنرلز اور سائنس دانوں کے مشکور ہیں کہ انہوں نے موجودہ جغرافیہ کی طرف للچائی ہوئی نظروں کے سامنے ’’سدّ ایٹمی ڈیٹرنٹ‘‘ قائم کردی ہے۔ ہمارے ان 5۔ ایٹمی دھماکوں پر عرب و عجم‘ مشرق و مغرب کے مسلمانوں نے کلمہ شکریہ ادا کیا تھا یوں پاکستان کا تائید ایزدی سے ایٹمی طاقت بننا دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے باعث اطمینان ہوا تھا غائبانہ طورپر ’’پین اسلام ازم‘‘ کی آبیاری بھی ہو گئی تھی ان عالمی مسلمان مسرتوں نے ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے۔ نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر‘‘ کا عملی تصور پیش کیاتھا۔ مگر یہ 28 مئی اور یوم تکبیر تو ماضی کا کارنامہ ہے مستقبل ہمارا‘ ہمارے جغرافیئے کا‘ سرزمین کا پہلے سے کہیں زیادہ دشمنیوں‘ سازشوں‘ حکمت عملیوں … (گریٹ علاقائی و بین الاقوامی گیمز) پر مبنی ہے۔ شدید اور تباہ کن خطرات ہمارے جغرافیائی دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔ یہ خطرات جتنے مشرقی سرحد سے ہیں اتنے ہی مغربی سرحد اور بحیرہ عرب کے پانیوں پر موجود ہیں۔ یہ خطرات عالمی نوعیت کے جہاں ہیں وہاں مقامی اور علاقائی نوعیت کے بھی ہیں۔ دسمبر 1971ء جو شدید تباہی ہمارے لئے مشرقی پاکستان میں لایا‘ ہمارا وجود کاٹ کر اس میں سے بنگلہ دیش بنایا گیا تھا بنگلہ دیش کے دورے پر وزیراعظم نریندرا مودی نے وزیراعظم حسینہ واجد کی موجودگی میں ڈھاکہ میں دوٹوک کہا تھاکہ بنگلہ دیش بنوانے میں بھارت کا بھی خون شامل ہے۔ گویا کانگرس ہو یا بی جے پی‘ شیخ مجیب ہو یا حسینہ واجد پاکستان دشمنی میں سب ایک ہیں۔ سقوط ڈھاکہ اور قیام بنگلہ دیش میں اپنے وطن کا ساتھ دینے والے محب وطن افراد کو جس طرح حسینہ واجد حکومت نے پھانسیاں دی ہیں اور 190 کے قریب ہمارے فوجیوں کے خلاف جس طرح عوامی عدالتوں میں حسینہ واجد کی شہہ پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں یہ سب کچھ خلیج بنگال سے بحیرہ عرب کے پانیوں تک‘ گوادر سے چابہار کے مابین فاصلوں میں بھی پاکستانی جغرافیے کے لئے عالم شباب کی دشمنیوں کا ’’آئینہ جام جم‘‘ ہیں۔
اسلام‘ اللہ ‘ رسول ‘ قرآن پاک کی بنیاد پر دوہی ریاستیں وجود میں آئیں ایک شریعت پر مبنی ’’درعیۃ‘‘ سے اور قرب ریاض میں جو بالآخر سعودی عرب تک سفر کرتی ہوئی اپنی زندگی کے 80 سال مکمل کر چکی ہے ‘ دوسری پاکستان جو 25 سال بعد ہی دولخت ہوا تھا تب بھی دشمنوں کو صبر نہیں بلکہ اکھنڈ بھارت کے قیام میں اسے ہمارے ہی کل تک کے اتحادی امریکہ کی سیاسی ‘ سفارتی ‘ عسکری ‘ایٹمی ‘ معاشی ہمہ گیر پاکستان دشمن معاہدوں کی بنیاد پر مدد‘ سرپرستی اور تائید کامل حاصل ہے۔ روس آج بھی ایٹمی آبذوزوں کے ساتھ بھارت کا عسکری رفیق ہے۔ بھارت کی دنیا بھر سے اسلحہ کی خرید‘ سمندروں میں خدائی کا قیام‘ بحیرہ عرب میں فیصلہ سازی کا ایجنڈا پاکستانی جغرافیئے کا ہی محاصرہ ہے جو وقوع پذیر ہو چکا ہے۔ ان خطرات کو ہم عملاً سامنے موجود پا رہے ہیں۔ 1930ء سے 1940ء کے مابین ہٹلر دنیا پر آشکار ہوا تھا۔ تازہ منظر میں برصغیر میں انتہا پسند ہندو ذہن ‘ اس کی اسلام اور مسلمان دشمن متشددانہ ایجنڈا حامل تنظیمیں ‘ دنیا بھر کی نظروں کی ان کیلئے تحسین‘ ’’عالم کفر کے ملت واحدہ‘‘ کی تشریح بیان کررہی ہیں۔ وزیراعظم نریندرا مودی کا بی جے پی اقتدار برصغیر میں مسلمان ہندو کشمکش کو جنم دے چکا ہے برصغیر میں بات واپس محمود غزنوی‘ غوری‘ ابدالی عہد کی طرف جاچکی ہے۔ دیبل کے پانیوں میں کبھی مظلوم عورت نے کسی حجاج بن یوسف کواپنی مظلومیت کی دہائی دی تھی تو محمد بن قاسم آیا تھا۔ ڈھاکہ سے مظلوموں کی آہیں اور سسکیاں دوبارہ دیبل سے مظلوم عورت کی مسلسل دہائی ہے۔ مگر ہم تو آپس کی سیاسی لڑائیوں میں مشغول ہیں۔ کرپشن‘ نااہلی‘ فرائض کی بروقت ادائیگی سے محروم‘ نام نہاد غیر اخلاقی جمہوریت کے اونٹ پر سوار مگر ’’نیرو‘‘ کی طرح بانسریاں بجا رہے ہیں جنرل راحیل شریف کی رفاقت میں پاک فوج دفاع وطن میں مصروف ہے۔ سیاسی فیصلہ ساز کسی عالم بے ہوشی میں ہیں اور دفاع وطن سے غافل ہیں اپنے اپنے اور اگلی نسلوں کے اقتدار تحفظ کی مصروفیات نے ہم سے وہ حقیقی اہلیت‘ اخلاص اور ایثار وقربانی کا جذبہ چھین لیا ہے جس نے دفاع وطن میں اندرونی استحکام دینا ہے۔ مشرقی سرحد سے مغربی سرحد تک… فضا‘ پانی اور زمین سے آتی دشمنیوں کو سینوں پر روکنا تھا۔ بہت تلخ مگر سچ یہی ہے کہ ہمارے سیاسی فیصلہ ساز لب بام آچکی اور وطن کو انتشار میں دکھیلتی فضا کو دیکھنے سے محروم ہیں۔ جس طرح سے پہلے ایبٹ آباد میں اسامہ آپریشن ہوا اور اب کوئٹہ کے قریب سرحدی علاقے میں ملا منصور قتل کا ڈرامہ رچایا گیا۔ ایرانی پاسپورٹ پر کل بھوشن جاسوس کا پکڑا جانا ‘ ملامنصور کا ایران سے تعاقب اور کوئٹہ کے علاقے میں ڈرون میں مارا جانا ‘ چابہار کے افتتاح پر وزیراعظم نریندرا مودی‘ افغان صدر اشرف غنی اور میزبان صدر حسن روحانی کا اجتماع ثلاثہ اور اتحادی عزائم‘ جسکی مکمل خاموش سرپرستی امریکہ کررہا ہے۔ بھارتی ایرانی بحری مشقیں مستقبل قریب کی پاکستان دشمن حقیقت کی کہانی کہہ رہی ہیں اسلام آباد میں پروفیسر غنی جاوید کو اختتام سال کے ہفتے اور مہینہ میں دھماکوں کی فراوانی دکھائی دیتی ہے۔ انہیں فوج اور جنرل راحیل شریف بہت زیادہ خطرات ‘ دباؤ میں دھکیلے جاتے نظر آتے ہیں تو نوازشریف کی قوت ارادی جون کے پہلے ہفتے اور اگست کے آخری چھ دنوں میں بڑے مگر غلط فیصلے کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ جائزہ لیا جائے کہ کیا محترم نوازشریف ازخود بندگلی میں تو داخل نہیں ہورہے یا ہو چکے؟ ۔کیا اس کا انجام جمہوریت و پارلیمنٹ کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ حیرت اور تعجب کہ ان کی تائید کامل لاہور سے روحانی ذہن کے فضل سیدیوں کررہے ہیں کہ 23 جون کے اردگرد کوئی غلط کام ہو سکتا ہے وسط اگست میں المیہ و سانحہ ممکن نظر آتا ہے۔ حیرت اورتعجب ہے دو الگ الگ طریقوں پر گامزن افلاک ونجوم کے ان دماغوں کو جو متوقع عدم استحکام‘ انتشار اور جغرافیائی خطرات نظر آرہے ہیں وہ خود سیاسی فیصلہ سازوں بطور خاص وزیراعظم اوران کے خاندان کو اور مسلم لیگی مدبرین اور اہل فراست کو کیوں نظر نہیں آرہے؟ کیا فن سیاست نجوم و جعفر سے کہیں زیادہ بڑا راہنما نہیں ہے؟ یاد رہے بھارت اور پڑوسی مسلمان ممالک کا پاکستان کے ساتھ وہ معاملہ بھی ہو سکتا ہے جو شیر میسور سلطان ٹیپو کو ایسٹ انڈیا کمپنی فوج کے ساتھ ساتھ کچھ مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں اور افواج کی صورت میں فراہم ہوا تھا۔ انہدام مسلمان ریاست میسور اور سلطان ٹیپو کے عمل نیست ونابود میں مسلمان راجوں کا وجود کیا تلخ حقیقت نہیں ہے؟ اس تجربے کو سامنے رکھیں اور شمال مغرب اور مغربی سرحد کے بھارت نواز رویئے کو سامنے رکھیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024