یہ 16 دسمبر 1971ء کی اداس اور سوگوار شام تھی۔ ملک دولخت ہوچکا تھا۔ پاکستان کی 90 ہزار فوج اور شہری دشمن کی قید میں جاچکے تھے۔ 20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹونے بطور صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدہ سنبھالا۔ قوم سے پہلے خطاب میں اچھے اور نئے مستقبل کی نوید سنائی اور قوم کے عزم کو جلا بخشی اور شکست کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔ دوسری طرف ہالینڈ میں ایک نوجوان مسلم ایٹمی سائنسدان انڈین ٹی وی پر سقوط ڈھاکہ کے متعلق دستاویزی فلم دیکھ رہا تھا۔ اس فلم میں پاکستان آرمی کے آفیسرز اورجوانوں کو ہتھیار پھینکتے ہوئے دکھا یا جا رہا تھا۔ یہ مناظر اس سائنسدان کے لئے نا قابل برداشت تھے حتیٰ کہ ایک منظر ایسا بھی آیا کہ جس کو دیکھ کر وہ سائنسدان رو پڑا۔ وہ منظر ایک پاکستانی سپاہی کا خودکشی کرنا تھا کہ جس نے ہتھیار ڈالنے پر جان دینے کو ترجیح دے دی۔ اس دلخراش منظر نے نوجوان سائنسدان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اغیار کی خدمت کے بجائے اپنی صلاحیتیں ملک و قوم کے لئے وقف کرے گا۔ اس سائنسدان نے فوراً صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا جس میں پاکستان کی خدمت کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان جذبات کا خیر مقدم کیا اور اس نوجوان سائنسدان سے وعدہ کیا کہ مناسب وقت پر اس کی خدمات سے استفادہ کیا جائے گا۔ یہ نوجوان سائنسدان جو کہ ملک و قوم کی خدمت کے لئے بیتاب تھا کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھا۔ اسی اثناء میں انڈیا 18 مئی 1974ء کو پوکھران کے صحراء میں ایٹمی دھماکہ کر کے ایٹمی قوت بننے کا اعلان کردیتا ہے اور ساتھ ہی انڈیا کے حکمرانوں کے عیار ذہنوں میں اکھنڈ بھارت کے منصوبے کلبلانے لگتے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔
اس موقعہ پر ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کی ڈھارس بندھائی اور ایک جلسہ عام میں یہ مشہور زمانہ اعلان کیا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اس کے فوراً بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ہالینڈ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے رابطہ کیا اور انہیں فوراً پاکستان آنے کا کہا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان فوراً پاکستان آئے اور ذوالفقار علی بھٹو جوکہ اب وزیراعظم بن چکے تھے سے ملاقات کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ہدایت کی وہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اپنی رپورٹ پیش کریں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے کہوٹہ میں ایٹمی ریسرچ لیبارٹری قائم کرنے کا اعلان کیا اور اس کا سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مقرر کیا گیا۔ یہاں پر ذوالفقار علی بھٹو کو داد دینا پڑتی ہے کہ ابتداء میں دنیا کو پتہ ہی نہیں چلنے دیا گیا کہ ایٹم بم پر کام کہوٹہ میں ہو رہا ہے۔ دنیا کو یہی تاثر دیا گیا کہ پاکستان فرانس سے ایٹمی پلانٹ خرید رہا ہے اور یہ کام ایٹمی توانائی کمیشن کے زیر اہتمام ہو رہا ہے۔ یہ بھٹو حکومت کی بڑی کامیابی تھی۔ ایٹمی مشن پر کام چلتا رہا حتیٰ کہ دنیا کو پتہ چلا کہ کہوٹہ میں ایٹم بم بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان کافی کامیابی حاصل کر چکا ہے۔ اس اطلاع پر امریکہ سیخ پا ہوگیا اور امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے آن دی ریکارڈ ذوالفقار علی بھٹو کو نشانہ عبرت بنانے کی دھمکی دی اور بعدازاں اس پر بھی عمل کردکھایا۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی ایٹمی پروگرام پر عمل جاری رہا اور اس پر کوئی کمپرو مائز نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ 1984ء میں پاکستان نے ایٹم بم تیار کرلیا۔
جب یہ اطلاع جنرل ضیاء الحق کو دی گئی تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹری رکھ دیا گیا۔ اب ایٹم بم مکمل ہو چکا تھا۔ مگر اس کے تجربات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ پھر قدرت نے خود ہی یہ موقعہ فراہم کردیا۔ 11 اور 13 مئی 1998ء کو بھارت نے راجستھان کے صحرا میں پانچ ایٹمی دھماکے کر کے ایک مرتبہ پھر اپنی ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا او پاکستان کو چیلنج دے دیا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان پر شدید عالمی دبائو تھا کہ وہ جوابی دھماکے نہ کرے۔ اس موقع پر عالم اسلام کے سربراہوں خصوصاً سعودی عرب، ایران اور ترکی کی جانب سے دھماکہ کرنے پر زور دیا گیا۔ چین نے بھی جوابی دھماکہ کرنے پر حمایت کا اشارہ دیا۔ عوام کا بھی شدید دبائو تھا۔ اس پر اس وقت کے وزیراعظم جو کہ اب بھی وزیراعظم ہیں یعنی میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرلیا اور 28 مئی 1998ء کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024