آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں ملک کے امیر ترین تاجروں اور صنعت کاروں سے خطاب میں ملکی معیشت پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ان کے نزدیک سلامتی اور معیشت جڑواں بہنیں ہیں۔ انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبے میں بہتری ہوئی لیکن قرضے آسمان پر چلے گئے۔ جنرل صاحب کے خیال میں معاشی استحکام کیلئے عدم استحکام دور کرنا ہوگا۔ ان کی نگاہ میں ٹیکس شرح بڑھانے کی ضرورت ہے۔ خارجہ امور کے حوالے سے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے خیالات سے کسی محب وطن کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے افغانستان اور بھارت پر واضح کردیا ہے کہ ہمسائے جان لیں ہم ڈوبے تو سب ڈوبیں گے‘ ہم دنیا کے انتہائی غیرمستحکم خطے میں رہتے ہیں‘ مقدر بھی سانجھا ہے‘ مشرق میں جھگڑالو بھارت اور مغرب میں جنگ زدہ افغانستان‘ آرمی چیف نے ٹھیک کہا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ملکی سکیورٹی ترجیحات کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل سے ہی سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا۔ ختم نبوت کے حوالے سے کیپٹن (ر) صفدر کی قومی اسمبلی میں للکار کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ ملک بھر کے ہر مکتب فکر اور مسلک کے جید علماء کرام اور مشائخ عظام کے ایک نمائندہ اجتماع سے خطاب کریں اور ان سب پر واضح کردیں کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح قانون دانوں کا ایک اجتماع مدعوکریں جس میں واضح کریں کہ آئین اور قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔ ہمیں دشمنوں نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد میں الجھا رکھا ہے ان آپریشنوں کی لاگت کون برداشت کررہا ہے۔ (ن) لیگ حکومت کے چار سال میں 42.6 ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا اس میں آئی ایم ایف سے لیا گیا 6.2 ارب ڈالر کا قرضہ بھی شامل ہے جس کی ادائیگی 2017-18ء میں شروع ہوگی۔ تین سال میں قرضے کی رقم زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کیلئے استعمال کی گئی۔ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 16 ارب ڈالر ہونے جارہا ہے۔ ہماری سیاست مستحکم ہے نہ معیشت‘ جائیں تو جائیں کہاں؟ تین اہم ترین وزارتیں خزانہ‘ خارجہ اور داخلہ ہیں لیکن تینوں وزراء نے سیانوں کا قول پس پشت ڈال دیا ہے یعنی پہلے تولو پھر بولو لیکن واشنگٹن جاکر یہی قول پہلے بولو پھر تولو ہوجاتا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہہ دیا امریکہ کھوکھلے الزام نہ لگائے‘ دہشت گردوں کی نشاندہی کرے ہم بمباری کریں گے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال آئی ایس پی آر سے معیشت کے بارے ریمارکس پر خواہ مخواہ الجھ پڑے معیشت پر رات دن میڈیا بولتا اور لکھتا ہے حکومت صحیح ڈلیور کررہی ہوتی تو خارجہ کے بعد معیشت بھی طاقت کے اصل مرکز کا موضوع اور توجہ نہ بن گئی ہوتی۔ جواب الجواب تو مناظرہ کی شکل اختیار کرلے گا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی کہہ دیا کہ آرمی چیف کو معیشت پر بات کرنے کا حق حاصل ہے کیا پاکستان کا عام شہری مہنگائی پر واویلا نہیں کرتا‘ قرضے آسمان پر پہنچیں گے تو کون ہے جو حکومت کو خراج تحسین پیش کرے گا؟ فوج نے واضح کردیا ہے ڈومور اور مشترکہ آپریشن کی گنجائش نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹیکنوکریٹ حکومت کی خبروں کو بھی مسترد کردیا ہے۔ اس سے زیادہ واضح بات اور کیا ہوگی کہ جمہوریت کو فوج نہیں‘ عوامی امنگیں پوری نہ ہونے سے خطرہ ہوگا۔ وزیراعظم کو علم ہونا چاہئے کہ عوامی امنگیں کیا ہیں اور کیا وہ پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ وزراء کی غیرسنجیدگی کا تو یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں کورم پورا ہونا ہی مشکل ہوتا ہے ان تک تمام ووٹروں کی رسائی تو دور کی بات ہے سندھ اسمبلی نے اراکین اسمبلی‘ مشیروں‘ وزیروں کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کرکے خزانہ پر 30 کروڑ سالانہ کا بوجھ ڈال دیا ہے کیا اسے عوامی امنگوں کا پورا ہونا کہتے ہیں؟
آصف زرداری اور عمران خان میں لفظوں کی گولہ باری جاری ہے۔ لفظی جنگ میں الزامات کا تبادلہ ہورہا ہے۔ عمران خان کی گولہ باری نے انکشاف کیا ہے کہ آصف زرداری کراچی کے ایک سینما میں ٹکٹ بلیک کرتے تھے اور آج ایک لاکھ ایکڑ اراضی اور 19 شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ نوازشریف 300 ارب روپے باہر لے گئے لندن میں ان کی 29 جائیدادیں ہیں۔ ادھر آصف زرداری نے جوابی گولہ باری میں کہا ہے قوم کو نوازشریف‘ عمران خان جیسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہئے اور بچوں کو بھی بچانا چاہئے‘ ڈینگی کا مقابلہ نہ کرنے والا وزیراعظم بن گیا تو معلوم نہیں کیا کرے گا‘ معیشت کے کاندھوں پر گردشی قرضہ‘ بیرونی قرضے اور مالیاتی خسارہ سوار ہیں۔ دنیا بھر میں اسحاق ڈار واحد وزیر خزانہ ہیں جن کے گرد احتساب کا جال بُنا جا چکا ہے بھلا ان کی توجہ مقدمات کی فائلوں پر ہوگی یا سرکاری فائلوں پر۔ (ن) لیگ کی پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشی تنزل حیران کن ہے۔ فوج کا اکانومی کے بارے نقطہ نظر سول ملٹری لیڈر شپ کی ملاقاتوں میں بھی زیربحث لایا جاسکتا ہے۔ 60 کی دہائی میں ہم ایشیاء کے اکنامک لیڈرز میں شامل تھے۔ 1999ء سے 2013ء تک بجلی کا بحران معیشت پر مسلط رہا‘ 70 کی دہائی نے نیشنلائزیشن کے تجربے کو ناکامی سے دوچار ہوتے دیکھا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ہمارے سرمایہ کاروں کو سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا اور افریقی ممالک میں سرمایہ کاری پر مجبور کیا۔ چین نے جنگ نہ کرنے کی پالیسی اپنائی‘ معیشت کے استحکام پر توجہ دی اور وہ آج دنیا کی مضبوط ترین معاشی قوت بننے جارہا ہے۔ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کوئی معیشت بیرونی قرضوں سے مضبوط ہوئی ہو۔ ہمارے مشرق میں جھگڑالو بھارت اور مغرب میں غیرمستحکم افغانستان ہے۔ ہم خود سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں‘ ہمارا ستارہ گردش سے نکلتا ہی نہیں۔ عام پاکستانی کو فنانس اور اکنامکس کا کیا پتہ وہ سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس‘ بجٹ کے خسار‘ جی ڈی پی وغیرہ سے قطعاً نا آشنا ہے‘ وہ بازار میں اپنی قوت خرید کا اشیائے صرف کی قیمتوں سے موازنہ کرتا ہے‘ ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں کو اپنی بساط سے باہر دیکھتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ حکومت معمولی بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے آگے بے بس کیوں ہے؟ اتنے زیادہ سرکاری افسر ان کو حاصل گاڑیاں اور پروٹوکول آخر کس لئے ہے؟ ٹماٹر‘ چینی کے بعد پیاز کی قیمت بھی آسمان کو چھونے لگی۔ سعد رفیق کی سیاسی لغت میں زرداری کی بریت قیامت کے آثار‘ شیخ رشید کے نزدیک حدیبیہ ریفرنس چوروں کی ماں اور ایل این جی کیس نانی‘ شہبازشریف کی نگاہ میں نوازشریف کیخلاف بھاشن دینے والے خود سر سے پائوں تک کرپشن میں ڈوبے ہیں۔ ادھر پنجاب پولیس میں دو سال میں اڑھائی ارب روپ کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے‘ ریکارڈ بھی غائب ہے‘ واسا میں کروڑوں کے فراڈ کی خبریں ہیں۔ تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق 2016-17ء میں حکومت پبلک سیکٹر کے اداروں‘ بینکوں اور پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونی ذرائع سے کل 16 ارب ڈالر بطور قرض لئے چنانچہ بیرونی قرضوں کا مجموعی بوجھ 83 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ اسی لئے سپہ سالار نے کہا کہ قرضے آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔ حکومت پاکستان کے ذمے 66 ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔
ادھر احسن اقبال نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور سے کہا ہے کہ وہ معیشت پر تبصروں سے گریز کریں انہیں آرمی چیف کی اس بات سے اتفاق ہے کہ قرضے آسمان پر پہنچ گئے ہیں لیکن معلوم نہیں انہیں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کون سا بیان نامناسب لگا ہے ۔ احسن اقبال کے نزدیک غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی ساکھ متاثر کرسکتے ہیں۔ احسن اقبال کو معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کا کون سا ملک ہے جسے پاکستان کی ساکھ کا علم نہیں۔ اسلام آباد میں غیرملکی سفیر ہمارے بارے میں زیر زبر سے اپنی حکومتوں کو بلاناغہ آگاہ رکھتے ہیں ان کے اپنے ذرائع کے علاوہ ہمارا میڈیا انہیں ہر روز اچھا خاصا مواد فراہم کرتا ہے۔ احتساب عدالت کے باہر اندر جو کچھ ہوا اس کا کسے علم نہیں ہوا۔ پولیس افسر کو سینئر وکیل کے تھپڑ مارنے سے پاکستان کی ساکھ کو چار چاند لگے یا نہیں لگے۔ یہ بھی پاکستان کی عدالتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ وکلاء کے ہنگامہ پر فرد جرم مؤخر ہوگئی۔ احسن اقبال کا دعویٰ ہے معاشی صورتحال بہترین ہے۔ طلال چودھری کے نزدیک انتہائی خراب‘ جبکہ اسحاق ڈار کے منہ کو چپ لگی ہے۔
ملک میں کس کس کلچر کا ذکر کیا جائے جو تہس نہس نہیں ہوا۔ پولیس اور عدلیہ کا تو کوئی کلچر ہی نہ رہا۔ ہمہ گیر تبدیلیوں کا در کھلنے جا رہا ہے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کی خبریں گردش میں ہیں۔ لگتا ہے ملک میں کچھ ہونے جارہا ہے۔ میر ظفر اللہ خان جمالی جیسی سنجیدہ فکر شخصیت کی (ن) لیگ سے علیحدگی معمولی بات نہیں۔ احسن اقبال نے امریکیوں کو بتایا کہ پاکستان کی معیشت ترقی کے اعتبار سے پچھلے دس سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ادھر آصف زرداری کا مطالبہ ہے معاشی ایمرجنسی لگائی جائے اور اسحاق ڈار استعفیٰ دیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر غیرملکی قرضوں کی قسط ادا کرنے کے بعد 19 ارب 67 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔
سٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے نجانے کیا دیکھ کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہماری معیشت کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ ہمارے بجٹ کے پرنسپل سٹیک ہولڈرز مسلح افواج ہیں اگر ہمارا گروتھ ریٹ کم ہوتا ہے تو ہمارا بجٹ بھی گر جائے گا۔ بھارت کے مقابلے پر ہم اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتے۔ بھارت کا گروتھ ریٹ 6 سے 7 فیصد ہے جو چین سے بھی آگے ہے۔ ہم 4 سے 5 فیصد سے آگے نہیں جارہے۔ بھارت نے پچھلے سال اپنی افواج پر 51 ارب ڈالر خرچ کئے جبکہ پاکستان 9.5 ارب ڈالر خرچ کرسکا۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024