صرف مظلوم زینب نہیں، سارا معاشرہ اور ریاستی نظام زندہ درگور ہوگیا ہے۔ نظام انصاف کا بے گوروکفن لاشہ پڑا ہے اور ماتم جاری ہے کئی چوبیس اور چھتیس گھنٹے گزر گئے لیکن حاکموں کے ’نوٹس‘لینے، کربناک ریمارکس، اور ’آنیوں جانیوں‘ کے باوجود وہ درندہ آزاد ہے۔ بچوں کی عدالت میں بڑوں کے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں۔ہم اپنے بچوں سے آنکھ ملانے سے کتراتے ہیں وردی بدلنے سے پنجاب پولیس نہ بدلی، روئیے نہ بدلے سب کچھ وہی ہے۔ عالی مرتبت بی بی زینب کی زندگی اسلامی تاریخ کا آنسوئوں سے لکھا ہوا باب ہے۔ 6 سالہ زینب کی المناک موت نے مصائب و آلام کی تلخ یادیں تازہ کردی ہیں ۔ صدمہ ایسا شدید اور اعصاب شکن ہے کہ قوت برداشت جواب دے گئی ہے۔ الفاظ ایسے بے وقعت کبھی نہ ہوئے تھے۔ پنج دریاؤں کی دھرتی اور بلھے شاہ کی نگری میں قیامت بپا ہوگئی۔ آنسوئوں سے تر چہرے کے ساتھ زینب کے والد امین نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ ان کا اعتراض خالصتاً عقیدے کی بنیاد پر تھا۔ انہیں ایڈیشنل آئی جی پولیس پنجاب ابوبکر خدابخش کی سربراہی پر اعتراض تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ زینب کے والد نے اس پولیس افسر کی پیشہ وارانہ مہارت یا مسلمہ دیانت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس منفی رویئے کو قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا،
پیدائشی قادیانیوں کے عقائد کو ان کے فرائض کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنانا چاہئے۔ اس حوالے سے معروف مدیر مکرم جناب ممتاز شاہ نے مراسلہ ارسال کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
ملک ابوبکر خدا بخش انتہائی ایماندار اور فرض شناس افسر ہیں جن کو ننھی زینب کے والد نے صرف احمدی ہونے کی بنا پر بچی کے قتل پہ بنائی گئی جے آئی ٹی کی سربراہی سے ہٹوایا ہے۔ بطور ڈی پی او بھکر تعیناتی کے دوران جب ان کے بھانجے نے کسی کی سفارش کے لئے پیسے لئے تو اسے جیل میں ڈال دیا اور اپنی بہن کے کہنے پر بھی نہیں چھوڑا۔ ضلع خوشاب کے تمام ڈاکو چور اور اچکے ضلع چھوڑ کر بھاگ گئے یا مارے گئے یا پکڑے گئے، قبضہ گروپوں اور سیاسی اثر و رسوخ کا کا خاتمہ ہوگیا۔ اس وقت مولوی حضرات کی سربراہی میں وفد وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس شکایت لیکر آیا کہ ڈی پی او قادیانی ہے اسے تبدیل کیا جائے جس پر حکومت نے ملک ابوبکر خدا بخش کو عہدہ سے ہی معطل کر دیا۔ اب جب بھی پنجاب حکومت کو کوئی بغرض مجبوری کام میرٹ پر کرنا پڑتا ہے تو ملک ابوبکر خدا بخش کو ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہی وہ شخص ہے جس نے اپنا کام ایمانداری سے کرنا ہے۔
لیکن بطور ایک ایماندار اور خصوصاً ایک احمدی ہونے کی وجہ سے ملک ابوبکر خدا بخش کی مخالفت صرف زینب کے والد نے نہیں کی بلکہ یہی مخالفت اور امتیازی سلوک محکمہ پولیس میں ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اور آئندہ بھی رکھا جائے گا۔ ایک انتہائی ایماندار اور قابل ترین افسر ہونے کے باوجود بھی انہیں کسی کلیدی عہدہ پر نہیں لگایا جائے گا بلکہ ریٹائرمنٹ تک بس یہی اکا دکا کام لئے جائیں گے اور بڑا بھی کیا تو ریلوے یا پھر موٹروے میں تعینات کر دیں گے۔ ان سے پہلے ڈاکٹر وسیم کوثر بھی احمدی ہونے کی وجہ سے اس قسم کا سلوک برداشت کرچکے ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور ہائی پروفائل واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے:
میجر جنرل عبداللہ سعید جنرل آفیسر کمانڈنگ GOC کوئٹہ تھے، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا، جنرل ضیاالحق فوج کے سربراہ بن چکے تھے، فوج کے افسران کو حلف نامہ جاری کیا گیا کہ جس میں عقیدہ ختم نبوت پر ایمان اور لاہوری یا قادیانی گروپ سے تعلق نہ ہونے کی شہادت دینا پڑتی تھی جنرل ضیا کیا 'چیز' تھا کس درجہ منافق تھا ملاحظہ فرمائیں موصوف جنرل عبداللہ سعید سے کہتے ہیں عبداللہ تم نے ابھی تک حلف نامہ نہیں بھجوایا' فلاں فلاں جرنیل نے تو بھجوا دیا ہے جنرل عبداللہ سعید نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ میں اپنے عقیدے کے بارے میں غلط حلف نامہ نہیں دے سکتا۔ کہتے ہیں کہ جنرل ضیا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہاThen you have to face the music. موقع پر موجود ایک راسخ العقیدہ مسلمان افسر نے جنرل ضیا کی ترغیب پر اپنے افسر کا جواب سن کر انگلیاں اپنے منہ میں داب لیں تھیں۔ جنرل عبداللہ سعید نے بڑے رسان لہجے میں جواب دیا
Sir, no issue, I will do it.
پھر یہ ہوا کہ وہ کھرا جرنیل قبل از وقت ریٹائرڈ ہوگیا اور اسے جنرل نے میکسیکو میں سفیر لگا دیا۔
مقامی پولیس کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سارا ہفتہ ایسا خاکہ گردش میں رہا جو صحیح نہیں تھا۔ پھر نیا خاکہ جاری ہوا۔ پنجاب حکومت کا ایک کروڑ انعام کا اشتہار پہلے جاری ہوگیا اور درست خاکہ بعد میں اخبارات والیکڑانک میڈیا کی زینت بنا۔ کیا یہ بات ہی ہمارے کھوکھلے پن کا بین ثبوت نہیں؟
بچی کے غائب ہونے سے متعلق بنیادی سوالات پر معلومات سرے سے اب تک دستیاب نہیں۔ عدالت عظمیٰ میں بھی غصہ اور برہمی کا ماحول زیادہ طاری رہا۔ اگر ہوش مند بھی غصے اور دانائی کی لکیر عبور کر جائیں گے تو معاشرے کی اکثریت کا کیا ہو گا؟ زینب کے ورثا اور اہل علاقہ نے ابتدائی فوٹیج پولیس کو فراہم کی جو ایک بیکری کے کیمرے سے لی گئی۔ دوسری جانب ’مثالی صوبے‘ کی پولیس کا ’تھانے دار‘ مطالبہ کر رہاتھا کہ ’بچی کی نعش مل گئی ہے دس ہزار روپے انعام دو۔‘ میڈیا میں کہرام نہ مچتا تو اس سے قبل جو معصوم بچے تہہ خاک سوگئے، ذلت کے دیوتا کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے، معصومہ زینب کا معاملہ بھی ضمیر فروشوں کے قبرستان میں دفن ہو جاتا؟
عدالتوں کو بھی دیکھیں؟؟ واقعہ ایک ہوا۔ ہر طرف سے ’نوٹس لے لیا‘، ’نوٹس لے لیا‘ کی چیخ وپکار شروع ہو گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے نوٹس لیا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے نوٹس لیا۔ چیف آف آرمی سٹاف نے نوٹس لیا۔ اور نجانے نجانے کس کس نے نوٹس لیا۔ ہاتھ جوڑ کر عرض ہے۔ حضور! رحم کی درخواست ہے۔ کاش نوٹس لینے کے بجائے ہم سب اپنا فرض ادا کرنا شروع ہوجائیں۔ کسی واقعہ کی لکیر پیٹنے کے بجائے اس کی جڑ تک جائیں۔ مسائل کی کوکھ ویران کریں۔ اس معاشرے کی جڑیں جس سرطان کو پی رہی ہیں، اس کا تدارک کریں۔ ان سنجیدہ سوالات کا جواب تلاش کریں جو نجات کی راہ دکھلائے۔ کیا ایسا کوئی چلن ہم نے دیکھا ہے؟ بیانات کی سولی پر قوم کو کب تک لٹکائیں گے؟