کسی زمانے میں عزیز میاں قوال کے یہ بول بڑے مشہور ہوئے۔ سمجھ سمجھ کے بھی جو نہ سمجھے میری سمجھ میں وہ ناسمجھ ہے۔ آج وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ان شبدوں میں مجسم شکل اختیار کرلی ہے۔ احسن اقبال صاحب کی عالمیت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی‘ انہیں پروفیسر کہا جاتا تھا۔ جس کابینہ میں غٹرغوں قسم کے وزیروں کی اکثریت ہو وہاں چمکتا ہوا پتھر بھی پارس دکھائی دیتا ہے۔ میاں نوازشریف کی رخصتی کے بعد جب وزارتوں کی بندر بانٹ شروع ہوئی تو وفاداری بشرط استواری معیار مقرر ہوئی۔ گو خاقان عباسی وزیراعظم بن گئے مگر دریوزہ گر آتش بیگانہ ہی رہا۔ یہ بھی اتنے ہی بااختیار ہیںجتنے ہلاکو خان کے حملے کے بعد عباسی خلیفہ رہے۔ ہر کسی کو علم تھا کہ منصور کے پردے میں کون بول رہا ہے۔ اب بھی میاں صاحب ہی پردے کے پیچھے تاریں ہلا رہے ہیں اور پتلیوں کا رقص جاری ہے۔ چونکہ احسن اقبال صاحب کا شمار ماڈرن پنج پیاروں میں ہوتا ہے اسلئے انہیں ملک کی نہایت اہم مگر نازک وزارت تفویض کی گئی۔ میاں صاحب کا کمال یہ ہے کہ بادہ ظرفِ مدح خوار دیکھ کر نہیں بانٹتے بلکہ وفاداریوں کا حساب رکھتے ہیں۔ حکومت کے کسی سابقہ پی اے کو ڈی جی LDA لگا دیتے ہیں تو کبھی گریڈ17 کے کاسہ لیس کو گریڈ22 کی پوسٹ پر متمکن کر دیتے ہیں۔ عباسی خلیفہ ہارون رشید کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے وقت میں دنیا کا طاقت ور ترین شخص تھا۔ پاکستان کی حد تک مورخین میاں صاحب کو بھی اسی رتبہ بلند پر فائز کریں گے۔
وزارت داخلہ کا چارج سنبھالتے ہی احسن صاحب نے ’’اپنے ہنر کے معجزے‘‘ دکھانے شروع کر دیئے۔ پہلا تاثر’’تھری۔ان۔ون‘‘ کا تھا۔ فائنانس اور خارجہ پالیسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ ڈار صاحب بوجوہ احتجاج نہ کرسکے۔ وہ آج کل منقارِ زیرپر ہیں۔ لندن میں زیرعلاج ہیں‘ اللہ تعالیٰ انہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے۔ خواجہ آصف بھی کچھ بجھے بجھے نظر آتے ہیں۔ ان میں وہ پھرتی نظر نہیں آتی جس کا مظاہرہ انہوں نے سپریم کورٹ میں آج کل کے حکومتی وکیل اکرم شیخ صاحب کا سرستون سے ٹکرا کر کیا تھا۔
جیمز بانڈ کی طرح چومکھی کھیلنا انہیں مہنگا پڑ گیا ہے۔ پرائی کے چکر میں اپنی بھی نبیڑ نہیں پارہے۔ حکیم آغاجان عیش نے غالب کے متعلق کہا تھا ’’ مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے‘‘ احسن اقبال کے متضادبیانات بھی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مرزا کے طرفدارکہیں کہ یہ کس قسم کا تقابلی جائزہ ہے۔ وہ خداوند سخن تھا، اگر آغا کو اشعار کے معنی سمجھ نہیں آتے تھے تو یہ انکی کم مائیگی تھی۔ تعصب تھا‘ چھوٹا پن تھا۔ احسن اقبال کی سوچ تو اپنے محیط سے بھی باہر نہیں نکل پاتی۔ بے جواز باتیں کرتے ہیں۔ چلیئے ہم اپنی غلطی تسلیم کرلیتے ہیں، آغا کو تو غالب کا کلام گراں گزرتا تھا‘ احسن صاحب اپنا کیا ہوا بھی سمجھ نہیں پارہے۔ عجیب باتیں کررہے ہیں۔ نقاذ بیانی کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی سانس میں اپنے کہے کی خود تردید کردیتے ہیں۔ دراصل خشت اول ہی غلط رکھی گئی۔ کیا آپ کو ہندوپاک کی تاریخ میں کوئی ایسا وزیرداخلہ نظر آتا ہے جو ایک سپاہی سے توتکار کرکے اپنی بے عزتی کرواتا ہو۔ وہ بھی کیمروں کی مکمل روشنی میں۔ پہلے تو انہیں عدالت میں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ خوشامدتخلیے میں بھی کی جاسکتی ہے۔ عدالت کو رینجرز نے حفاظتی اقدامات کے تحت CORDON OFF کر رکھا تھا۔ اب ذرا ڈائیلاگ ملاحظہ فرمائیں۔ تم کون ہو؟ میں حاضر سروس سپاہی ہوں! میں اندر جانا چاہتا ہوں‘ اس کا حکم نہیں ہے!تمہیں پتہ نہیں میں کون ہوں‘ میں وزیرداخلہ ہوں اور رینجرز میرے ماتحت ہیں۔ آپ پھر بھی اندر نہیں جاسکتے! تمہارا کمانڈر کدھر ہے؟ اسکو بلائو‘ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ وزیر صاحب اس بے عزتی پر تلملا اٹھتے ہیں۔ گرما کے مثل صاعقہِ طور ہو جاتے ہیں۔ موقع پر موجود صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں میں یہ بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ ریاست کے اندر ریاست کس نے کھڑی کی ہے؟ میں انکوائری کرائوں گا اور استعفیٰ دے دو نگا۔ کچھ بھی نہ ہوا‘ وزیر موصوف اپنے الفاظ کڑوی گولی کی طرح نگل گئے۔ چہرہ ریش مبارک میں چھپا لیا‘ جب صحافیوں نے انہیں اپنا وعدہ یاد کرایا تو کھمبا تو کیا نوچنا تھا‘ اسکے اوپر چڑھ گئے۔
ابھی اس واقعے کی گرد پوری طرح بیٹھ بھی نہ پائی تھی کہ ایک نئی افتاد آن پڑی۔ حکومت نے کسی کے کہنے پر کسی باہر کی طاقت کو خوش کرنے کیلئے حلف نامے میں ایک ایسی ترمیم کردی جو توہین رسالتؐ کے زمرے میں آتی تھی۔اس پر غلامان محمد عربی نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ ساری قوم مشتعل ہو گئی۔ وزیر قانون نے عذرلنگ تراشا کہ سہواً ایسا ہوا ہے۔ یہ کلیریکل مسٹیک تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ کلیریکل غلطی کا۔ کی ۔ ہے ہو۔ کی تو ہو سکتی ہے الفاظ حذف کرنے یا انہیں بدلنے کی نہیں ہو سکتی۔ وزیر قانون کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وہ استعفیٰ دیدیں۔ اس سے بے ضرر مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کسی نے بھی اس شخص کو تلاش کرنے کی کوشش نہ کی جو تبدیل شدہ قانون کا اصل محرک تھا۔ زاہد حامد تو ایک ’’ڈرو‘‘ قسم کا آدمی ہے۔ اس کا تعلق سول سروس سے رہا ہے۔ لائلپور میں ہم نے 1972ء کے قریب اکٹھی ملازمت کی ہے۔ اس وقت ان کا شمار شریف افسروں میں ہوتا تھا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قانون ڈرافٹ کرتے ہوئے انہوں نے یا سیکرٹری قانون نے اسکی زیر۔ زبر نہ پڑھی ہو۔ جو ایسے ہدایات ملیں، بدقسمتی سے وہ انکار نہ کر سکے۔ کس نے حکم دیا؟ اس کا تعین ہونا باقی ہے۔ زاہدحامد کو چاہئے تھا کہ فوراً استعفیٰ دے دیتے۔ باالفرض ان کا قصور نہ تھا تو بھی ذمہ داری تو اسکی بنتی تھی۔ ایک گاڑی کا حادثہ ہونے پر وزیر ریلوے لالو پرشاد نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ گاڑی چلا تو نہیں رہا تھا۔ اسے Vicarious or contructive liability کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی مثالیں دنیا بھر میں نہیں ملتیں۔ کہتے ہیں کہ وہ تیار تھا اسے کسی طاقت نے ایسا نہیں کرنے دیا۔ غالباً انہیں ڈر تھا کہ راز فاش نہ کر دے۔ اب اس Episode میں وزیر داخلہ کی کارکردگی دیکھیں پہلے کہا‘ دھرنے والے چاہتے ہیں کہ ماڈل ٹائون کی طرح یہاں بھی لاشیں گریں اور تمام قوم میں اشتعال پھیلے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دینگے۔ بے خیالی میں پنجاب حکومت کو رگڑا لگا گئے۔ گویا چھوٹے میاں صاحب یا صوبائی وزیر قانون نے اپنی نا اہلی یا کوتاہ بیتی سے وہ سچوایشن پیدا کی۔ پھر فرمایا میں صبر سے کام لے رہا ہوں وگرنہ تین گھنٹوں میں دھرنا ختم کرایا جا سکتا ہے۔ جب طاقت کا استعمال کارگر نہ ہوا تو کہا میرا اس میں کوئی دوش نہیں یہ سب عدالت اور انتظامیہ کا کیا دھرا ہے۔ میں ایسا ایکشن نہیں چاہتا تھا۔ اسکے بعد تمام اختیارات ان رینجرز کو تفویض کر دئیے جنہیں کچھ دن پہلے یہ مطعون کر رہے تھے۔ D.G رینجرز کو ہدایت کی کہ وہ جب چاہیں، جس طرح چاہیں، بات چیت کریں۔ ابھی ان احکامات کی سیاہی خشک بھی نہ ہو پائی تھی کہ ایک نیا حکم نامہ جاری کر دیا۔ حکومت کے کسی بزرجمہر کو بڑی دور کی سوجھی۔ ایک پتھر دوکاج۔ آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج کو حکم دیا کہ وہ دھرنے والوں سے نبٹیں۔ اس اثناء میں سارے ملک میں دھرنے شروع ہو گئے تھے فوج کے ہاتھوں لوگ مریں ملک کی مقبول ترین فوج اور نیک نام سپہ سالار انتہائی غیر مقبول ہو جائیں ردالفساد اور ضرب عضب قصہ پارینہ بن جائیں۔ جب لڑ لڑ کر عوام اور فوج نڈھال ہو جائیں تو پھر مرزا یار عدلیہ سے دو ہاتھ کر لے۔ اس دوران کئی اور فتوے کھڑے کرا دئیے جائیں۔ سبحان اللہ ! کیا حکمت عملی تھی! اس قسم کی چالاکیاں تو چوتھی جماعت کے بچے بھی نہیں کرتے۔
ہم ارباب اختیار کو مشورہ دینگے کہ محترم وزیر کو مزید امتحان میں نہ ڈالیں انہیں اس عذاب عظیم سے نجات دلوائیں۔ بے شک انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیں کیونکہ فکر کس بقدر ہمت اوست