دہشت گردی کی لہر اور اندرونی استحکام

دہشت گردی کی لہر اور اندرونی استحکام

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے 25 کروڑ پاکستانیوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے- پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان برداشت کر چکا ہے- ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی شہری شہید ہوئے جن میں سول اور عسکری افراد دونوں شامل ہیں- دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 100 بلین ڈالر سے زیادہ مالی نقصان برداشت کرنا پڑا - آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں کی شہادتوں نے پوری قوم کو ہلا کر بھی رکھ دیا اور متحد بھی کر دیا- سب سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور سیکورٹی کے اداروں نے اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے کیا- 2015 میں افواج پاکستان نے پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوات شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مشکل ترین علاقوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا صفایا کیا- اس فوجی آپریشن میں پاک فضائیہ نے بھی حصہ لیا-اس بڑے آپریشن کے بعد 2019 تک حالات معمول پر رہے- البتہ دہشت گردی کے اکا دکا واقعات ہوتے رہے- 2020 میں دہشت گرد پھر ایکٹو ہو گئے اور ایک سال کے اندر دہشت گردی کے 12 واقعات ہوئے- امن معاہدہ کے بعد امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل گئیں - طالبان نے افغانستان پر 2021 میں قبضہ کیا- پاکستان کو قوی امید تھی کہ طالبان کے دور اقتدار میں مغربی سرحد محفوظ رہے گی- انتہائی تشویشناک امر ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 60 فیصد اضافہ ہو چکا ہے- تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد افغان سر زمین سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں- اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ کے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے تحریک طالبان پاکستان کے 40 ہزار افراد کو پاکستان کے اندر آنے اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں قیام کی اجازت دے دی- پاکستان کی جیلوں میں بند دہشت گردوں کو بھی رہا کر دیا گیا - عوام کی جان و مال کی حفاظت کے منافی اس فیصلے کا خمیازہ سب سے زیادہ سیکورٹی فورسز کو بھگتنا پڑ رہا ہے-
نومبر کے مہینے میں دہشت گردی کے واقعات میں شدت آئی ہے- ایک ہی واقعہ میں 12 فوجی جوان اور افسر شہید ہوگئے - دہشت گردوں نے میانوالی ائیر بیس کو نشانہ بنایا - فضائیہ اور کمانڈوز نے بر وقت کاروائی کرکے دہشت گردوں کے منصوبے کو ناکام بنا دیا- پاکستان کے عوام حیران ہیں کہ افغان پاکستان کے خلاف کیوں ہیں- پاکستان نے افغانستان کو روسی قبضے سے نجات دلائی- امریکہ نےجب افغانستان پر قبضہ کیا تو پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی انسانی بنیادوں پر امداد جاری رکھی- لاکھوں افغانیوں کی پاکستان میں طویل عرصے تک مہمان نوازی کی- تحریک طالبان پاکستان خود کش حملوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں- ان کو بھارت کی سرپرستی اور مالی تعاون حاصل ہے- بھارت کی اعلانیہ حکمت عملی ہے کہ پاکستان کے اندرونی استحکام پر کاری ضرب لگائی جائے- تحریک طالبان کی خواہش ہے کہ قبائلی علاقوں پر ان کا قبضہ ہو جائے جہاں پر وہ شریعت کا نظام نافذ کر سکیں- انسانی تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گرد ہمیشہ سیاسی افراتفری سے فایدہ اٹھاتے ہیں- پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے- غربت بےروزگاری اور مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے- پاکستان میں لوگوں کو انصاف کے اداروں پر اعتماد نہیں رہا- بد اعتمادی اور مایوسی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے- عوام کو اپنا مسقبل مخدوش نظر آتا ہے- برین ڈرین غیر معمولی سطح پر پہنچ چکا ہے- پاکستان کے غیر یقینی حالات دہشت گردوں کے لیے سازگار ہوتے جارہے ہیں- پاک فوج اور عوام مل کر ہی اندرونی استحکام کو یقینی بنا سکتے ہیں- عوام چونکہ سیاسی طور پر تقسیم در تقسیم ہیں- عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے لازم ہےکہ پاک فوج مکمل طور پر سیاست سے الگ تھلگ ہو جائے اور عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے عوام دوست کردار ادا کرے- آنیوالے انتخابات میں اگر سب جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دیا گیا تو انتخابات کے بعد حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں اور نوجوانوں کی مایوسی شدت اختیار کر سکتی ہے- مایوس نوجوان تحریک طالبان پاکستان کے سہولت کار بن سکتے ہیں- عسکری قیادت کو پاکستان کی آزادی سلامتی اور اندرونی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے - سول اور عسکری قیادت کا ان افغانیوں کو پاکستان سے واپس بھیجنے کا فیصلہ دانشمندانہ ہے جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور دہشت گردوں کے سہولت کار بن رہے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں 24 دہشت گرد حملوں میں سے 14 واقعات میں پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغان شہری ملوث نکلے- اندرونی استحکام کی ذمے داری پاک فوج کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے وہ قومی ڈائیلاگ کرکے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی کوشش کریں اور سیاسی مصلحتوں کیلئے پاکستان کے مستقبل کو داو¿ پر نہ لگائیں -الیکٹرانک میڈیا کو بھی قومی مفاہمت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے -