مجھے ہے حکمِ اذاں

”گیہوں کے ساتھ گھن کا پسنا“ محاورہ تو بہت سنا تھا اور پاکستان میں کئی بار اسکا عملی مظاہرہ دیکھ بھی چکے لیکن اس دفعہ اسکا عملی نمونہ 26 اپریل کو ریوینیو بورڈ کے اس آرڈر No1088/IR-1/2024 میں دیکھنے کو ملا جسے راقم نے اپنے پچھلے کالم میں وزیراعظم کی ایف بی آر پر سرجیکل سٹرائیک کے نام سے تعبیر کیا تھا۔ اس پروانے میں چند ایک ایسے نام دیکھنے کو ملے جن پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ بڑے بوڑھوں نے اسطرح کے محاورہ جات ایسے ہی ایجاد نہیں کئے۔
کئی بار ذکر کر چکا اپنے استاد محترم جناب مجید نظامی کا سبق تھا کہ بات جب بھی کرنا دلیل اور ثبوتوں کے ساتھ کرنا لہٰذا سوچا جہاں اس سوچ اور جذبہ جسکے تحت یہ لسٹ نکالی گئی اسکی مداح سرائی کی گئی وہاں پر یہ بھی تو دیکھا جائے کہ اس سونامی کی زد میں انے والے لوگوں کی کارکردگی کیا واقعتا اسقدر گئی گزری تھی کہ انھے سی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا یا پھر کوئی اور کھیل کھیلا گیا، سو اس امر لسٹ میں شامل تمام افراد کا فردا فردا ڈیٹا حاصل کرنے کی ٹھانی لہٰذا سب سے پہلے جس آفیسر کا نام سریل نمبر 1 پر جلوہ افروز ہوا اسکے متعلق جو معلومات آکھٹی کر سکا وہ کچھ یوں ہیں۔
جن صاحب کا ذکر کرنے چلا ہوں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ماسٹر ان کمپوٹر سائنس کے حامل کوئٹہ کے ڈومیسائل کے اس شخص نے 1991ء میں سی ایس ایس کے بعد محکمہ کسٹم جوائن کیا۔ ملازمت کے بعد بیشمار پروفیشنل کورسز کرنے کے علاوہ اکیڈمک سطح پر آسٹریلیا کی کینبرا یونیورسٹی سے جو کوالیفیکیشن اسکے کریڈٹ میں اتی ہے وہ ماسٹر ان بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری ہے۔
کہتے ہیں جسطرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں برگیڈئر رینک سے اصل نوکری شروع ہوتی ہے اسی طرح سول سروس میں گریڈ بیس کے حصول کے ساتھ بندے کی اصل نوکری شروع ہوتی ہےاور اسکی انتظامی اور پروفیشنل صلاحیتوں کا پتا بھی اسی وقت چلتا ہے۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ صاحب تذکرہ جس وقت گریڈ بیس میں پروموٹ ہوئے تو بتدریج تین فیلڈ پوسٹنگز کلکٹر کسٹم پریوینٹیو لاہور، ڈائریکٹر کسٹم انٹیلیجنس لاہور اور کلکٹر کسٹم پورٹ قاسم جو پاکستان میں کلکٹر لیول پر سب سے اہم پوسٹنگ سمجھی جاتی ہے انکی سروس کا حصہ بنیں جسکے بعد وہ چیف کسٹم ٹیرف اینڈ ٹریڈ کی سیٹ پر پوسٹ ہوئے جو بجٹ سازی میں سب سے کلیدی کردار کی مالک ہوتی ہے۔ 
یہاں سے موصوف نے نیشنل مینجمنٹ کورس distinction کے ساتھ کیا اور پھر ڈائریکٹر جنرل کسٹم ویلیوئشن اور ڈائریکٹر جنرل ریفارمز اینڈ آٹو میشن پر کام کرنے کے بعد 2020ءسے لیکر 2022ءکا عرصہ بورڈ آف انوسٹمنٹ میں گزارا اور اس دوران وہاںease of doing business اور Pakistan Regulatory Modernisation initiative پر جو کام کیا اسے وہاں ایک ورکنگ پیپر کے طور پر تسلیم کیا گیا جسکے بعد موصوف ایف بی آر میں ممبر کسٹم آپریشن کی سیٹ پر پوسٹ ہوئے جو اس محکمہ میں انتہائی اہم لیکن ہمیشہ سے متنازعہ اور سازشوں کا گڑھ سمجھے جانے والی پوسٹنگ ہے۔
دوستو یہاں تک آپ اس کسٹم آفیسر کے کرئیر پر ایک نظر ڈالیں تو واقعاتی شہادتیں اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ تو بڑا پروفیشنل اور کرئیر آفیسر تھا جو اتنی اہم پوسٹوں پر رہا اور اس دوران کوئی ایسی کوتاہی یا سکینڈل بھی سامنے نہیں آیا جو اسکی کارکردگی پر کوئی سوالیہ نشان چھوڑے۔ پھر سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکا یک وہ کیا غلطان ہو گیا کہ دیکھتے دیکھتے ایک کرئیر آفیسر اے کیٹیگری سے سی کیٹیگری کی کھائی میں گر گیا۔
قارئین چلیں اسکا جواب حقائق کی روشنی میں ڈھونڈتے ہیں۔ کہانی شروع ہوتی ہے سنٹرل پروموشن بورڈ کے اجلاس سے جب گریڈ اکیس سے گریڈ بائیس کی پروموشن کے معاملات سامنے اتے ہیں۔ کسٹم کی طرف سے تقریباً پانچ سے چھ افسران کے نام زیر غور ہوتے ہیں جن میں رشتوں کے لحاظ سے دو انتہائی اہم عہدوں پر فائز سابقہ اور موجودہ شخصیات کے حوالے سے ایک خاتون کا نام جبکہ کراچی کے کاروباری مافیا کی آنکھوں کے تارہ کا نام سے جانا شخص موسٹ فیورٹ کے طور پر لیا جا رہا ہوتا ہے لیکن ان دونوں کے برعکس کارکردگی اور مثبت رپورٹوں کی بنا پر صاحب تذکرہ اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ خلاف توقع گریڈ بائیس میں پروموٹ ہو جاتے ہیں۔ اب یہاں سے اصل گیم شروع ہوتی ہے۔ انہی دنوں ایف بی آر میں اس بات پر غور ہو رہا ہوتا ہے کہ ان لینڈ ریوینیو اور کسٹم کے علیحدہ علیحدہ بورڈ بنا دیے جائیں جنکے اپنے اپنے چئیرمین اور پالیسی ہو۔ کیونکہ موصوف کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے محکمہ میں انکی ڈرافٹنگ اور پیپر ورکنگ اپنی مثال آپ سمجھی جاتی ہے اسلیئے صاحب اختیار بھی اس کام کیلیئے انھیں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور یہیں سے وہ خدشات زور پکڑتے ہیں کہ اگر کسٹم کا بورڈ بن گیا تو موصوف چیئرمین کی اس ریس میں سب سے فیورٹ گھوڑا ہو سکتا ہے چنانچہ یہاں سے سازشوں کا آغاز ہوتا ہے۔
 اسی دوران ستمبر 2023ءمیں کراچی سے ایک میگا سکینڈل سامنے اتا ہے جسکا راقم نے اپنے پچھلے کالم “کامیاب ریاست” میں حوالہ دے کر اصل کرداروں کو سامنے لانے کی بات کی تھی۔ سکینڈل کی بازگشت کے ساتھ ہی موصوف کو ممبر کسٹم کی سیٹ سے ہٹا دیا جاتا ہے اور ایک ایسے بندے کو اس جگہ پوسٹ کیا جاتا ہے جو اس سکینڈل کی ایف آئی آر میں پہلے ہی نامزد ہوتا ہے۔ بس اسکے بعد راقم کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں قارئین آپ خود اندازہ لگا لیں یہاں پر مافیاز کس طرح راج کرتے اور گیہوں کے ساتھ گھن کو چکی کی نذر کرتے ہیں۔ اندازہ کریں وزیراعظم اور آرمی چیف جس نیک سوچ کو لیکر نکلے اور وزیراعظم نے اس جہاد میں جو پہلاقدم اٹھایا ہے اسے سازشی ٹولے نے شروع میں ہی کس طرح متنازعہ بنا دیا ہے۔ کیا کوئی ہے جو اس کرئیر آفیسر کی داد رسی کرے ؟ ہمیں تو صرف ہے حکم آذان !

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...