ذرا موازنہ کریں کل اور آج کا۔ ممتاز بھارتی صحافی کالم نگار اور مصنف کلدیپ نیئر راوی ہیں میں نے جناح سے پوچھا اگر کوئی تیسرا ملک انڈیا پر حملہ کر دے تو پاکستان کا ردِعمل کیا ہو گا؟ اُن کا جواب تھا ،’’ پاکستانی فوجی بھارتی فوجیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ حملہ آور سے لڑیں گے ۔ یاد رکھو نوجوان ! خون پانی سے بھی گاڑھا ہوتا ہے۔‘‘ قائد اعظم نے آزادی کے موقع پر فرمایا اُمید ہے کہ پاکستان اور انڈیا ، امریکہ اور کینیڈا کی طرح ہمسائے ہوں گے۔ کلدیپ نیئر ہی راوی ہیں کہ ا یک موقع پر قائد اعظم نے کہا تھا توقع ہے کہ پاکستان اور انڈیا اس طرح کے ہمسائے ہوں گے جس طرح کے جرمنی اور فرانس۔ مہاتما گاندھی نے اپنے قاتل نتھورام گاڈسے کے کھیت سے ٹماٹر نہیں چرائے تھے ۔ صرف اس لیے مرن برت رکھا کہ پاکستان کے حصے کے اثاثے اسے دئیے جائیں بلکہ گاندھی جی نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ پاکستان چلے جائیں گے۔ آزادی کے رہنمائوں میں کوئی نہیں چاہتا تھا کہ تقسیم کے وقت مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا جائے۔
پنڈت نہرو مرتے دم تک بڑی حد تک کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی خواہشات کا اظہار کرتے رہے۔ اگرچہ ان کی ان خواہشات میں کھوٹ کی آمیزش نظر آنے لگی تھی۔ ان گزارشات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تقسیم کے وقت قائد اعظم تو ایک مومن کی طرح جس کی زبان اس کے دل کی رفیق ہوتی ہے‘ بھارت کے ساتھ اچھے ہمسائے کی آرزو رکھے ہوئے تھے لیکن دوسری طرف شروع سے ہی بھارتی رہنمائوں کے دلوں میں کھوٹ اور نیت میں فتور تھا۔ جس کا تازہ مظاہرہ مودی نے اپنے ہی آئین کو پیروں تلے روند کر کیا ہے۔ جب آنکھ میں حیا نہ رہے تو آئین‘ انسانوں کے جمہوری حقوق اور اعلیٰ سیاسی روایات بے معنی ہو جاتی ہیں۔
آزادی کے وقت آر ایس ایس کی کوئی اہمیت نہیں تھی مگر اس نے ہندوئوں کے ذہنوں میں مسلم دشمنی اور عصبیت کا بیج بونا شروع کر دیا پہلے آزادی کے وقت مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں پھر مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آر ایس ایس کا دوسرا رُخ انڈین نیشنل کانگرس کی اندرا گاندھی ثابت ہوئی ، جس نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور پاکستان کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ مسلم دشمنی کا کیڑا اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ کانگرس مہا سبھائی ہندوئوں کی توقعات پر پوری نہ اُتری تو بی جے پی کا روپ دھار لیا۔ اب آر ایس ایس کو بی جے پی کی شکل میں حکومت اور نریندرا مودی وزیر اعظم مل گیا۔ یوں اکھنڈ بھارت کے خواب کی تکمیل کی طرف سفر شروع ہوا۔
قائد اعظمؒ کے معاصر کانگرسی لیڈروں میں مہاتما نہ مکاری کے باوجود آنکھوں میں کچھ حیا تھی۔ مگر ڈھٹائی کی انتہا تھی کہ ملک تقسیم ہو گیا اور اثاثوں کی تقسیم پر سانپ بن کر بیٹھ گئے یہ تو اللہ بھلا کرے نظام حیدر آباد دکن میر عثمان علی خان اور نواب آف بہائولپور کا جنہوں نے بڑی فیاضی سے پاکستان کی مالیات کو سہارا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نظام حیدر آباد کو اس ’’جرم‘‘ کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ بہرکیف اس طرح کی مدد سے گاڑی چل پڑی۔ ایک وقت (صدر ایوب کا دور) ایسا بھی آیا کہ پاکستان بھارت سے آگے نکل گیا لیکن پھر بدقسمتی سے کچھ ایسے لوگ اقتدار میں آ گئے جنہوں نے جو کچھ بنایا تھا ، ملیامیٹ کر دیا۔ آج بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے اور ہمارا جگری یار 75 ارب ڈالر کی کی سرمایہ کاری اس ملک میں کر رہا ہے‘ جس کی حکمران جماعت کے منشور میں بھارت کو مسلمانوں کے لیے سپین بنا دینے کا عہد کیا گیا ہے اور 90 لاکھ کشمیری مسلمان 24 دنوں سے گھروں میں قید ہیں۔
ٹرمپ ایک طرف ثالثی کی پیشکش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مودی کو کہہ رہے ہیں فکر نہ کرو جیسا کہو گے ویسا ہی ہو گا۔ دو تین دن قبل فرانس میں دنیا کی سات بڑی معیشتوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا۔ وہاں ٹرمپ مودی ملاقات کی تصویر دیکھنے والی تھی، یوں لگ رہا تھا اندرون لاہور کے کسی تھڑے پر دوجگری یار مہاجا اور سہاقا گپ شپ کر رہے ہیں۔
مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے ایسا وقت منتخب کیا ہے کہ کوئی بھی کشمیریوں کی مدد کو نہ پہنچ سکے۔ مودی کو علم ہے کہ پاکستانی قوم میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح یکجہتی نہیں ہے اور فوج صرف وہی سرخرو ہو سکتی ہے جس کے پیچھے ایسی حکومت ہو جس کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہو۔ ہماری لڑائی کوئی نہیں لڑے گا۔ جن کی طرف ہم دیکھ رہے ہیں۔ وہ مودی کے مالی جال میں پھنس چکے ہیں۔ یہ لڑائی صرف ہم نے اور خود ہی لڑنا ہے اور اس کے لیے قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنانا پڑے گا اور یہ کام حکومت ہی کر سکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کاادغام محض صدارتی آرڈی ننس پر مبنی نہیں بلکہ آئینی طریقے سے یعنی پارلیمنٹ کے د ونوں ایوانوں میں کثرت رائے سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے خارج کی جا چکی ہیں۔ مودی اگر اب ان دفعات کو بحال بھی کرنا چاہے تو بھی بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا انتہا پسندوں سے بھری پڑی ہیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں صدر ٹرمپ کی ثالثی (اگر واقعی وہ یہ پیشکش کرتے وقت مذاق کے موڈ میں نہیں تھے) اور بھارتی سپریم کورٹ‘ اب جو ہو گیا اسے بدلنے پر قادر نہیں۔ اگر جنگ ہوئی اور اس میں ایٹمی اسلحہ استعمال نہ ہوا تو روایتی اسلحہ سے جیتنا مشکل ہے ۔ یہ الگ بات کہ چین یا ترکی اپنے دوست پاکستان کو تنہا چھوڑنے کو بے غیرتی پر محمول کریں۔ کشمیر کو بھارت کے چنگل سے چھڑانے کیلئے ہمیں اندرون اور بیرون ملک بہت کچھ کرنا پڑیگا۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال جس مقام پر آگئی ہے‘ اس کیلئے جب تک مودی سرکار پر بیرونی دبائو نہیں آئیگا‘ وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس کیلئے پاکستان کو عالمی برادری پر واضح کر دینا ہوگا کہ پاکستان آج تک جس مسئلے کو پرامن طور پر حل کرنے کی جدوجہد کرتا رہا‘ ہر بار مذاکرات کی میز پر خلوص نیت کے ساتھ آکر بیٹھتا رہا‘ بھارت کی انتہاء پسند حکومت نے اسے ایک ہی جھٹکے میں وہاں تک پہنچا دیا ہے کہ نصف کرۂ ارض کی تباہی میں شاید ہی کوئی شک رہ گیا ہے۔ بھارت میں اپوزیشن کی جماعتوں میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ مودی سرکار سے ٹکر لے سکیں بلکہ وہ تو چاہیں گی کہ آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو دوبارہ دستور میں نہ ڈالا جائے۔ جہاں تک بھارتی سپریم کورٹ کا تعلق ہے‘ وہ خود دبائو میں ہے جو عدالت تیس سال سے بابری مسجد کا کیس پکڑ کر بیٹھی ہے‘ وہ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بارے میں حکومتی فیصلے کیخلاف جانے کی کیسے جرأت کریگی۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے چنگل سے نجات دلانے کیلئے عمران خان کی غیرمتزلزل جرأت ہی کارگر ہو سکتی ہے اور قوم کو بجا طور پر امید ہے کہ وزیراعظم نہ تو اپنے موقف سے ہٹیں گے اور نہ کسی ثالثی وغیرہ کے جال میں پھنسیں گے بلکہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے آخری حد تک جانے سے بھی دریغ نہیں کرینگے۔ اسکے باوجود اگر مودی سرکار کی جانب سے کوئی شرارت ہوتی ہے تو کرۂ ارض کی تباہی کی ذمہ داری مودی سرکار اور ان عالمی طاقتوں پر ہوگی جو اس جنگی جنونی کا ہاتھ روکنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024