مثالی معاشرہ کیلئے مذہبی‘ سماجی‘ معاشی‘ سیاسی‘ انتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے : سیمینار
لاہور (کلچرل رپورٹر) پاکستانی معاشرے کو مختلف قسم کی انتہا پسندیوں‘ جن میں سیاسی انتہا پسندی‘ مذہبی‘ سمسجی‘ معاشی اور سیاسی انتہا پسندی شامل ہیں‘ نے جکڑ رکھا ہے اور ہمارا معاشرہ مثالی معاشرہ اس صورت میں بن سکتا ہے جب ان تمام انتہا پسندیوں کو ختم کر دیا جائے اور یہ انتہا پسندیاں انصاف کی فراہمی‘ رواداری‘ سوشل ورک‘ حقوق و فرائض کی ادائیگی سے ہی ختم ہونگی۔ میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ فضول قسم کے ٹاک شوز کی بجائے انتہا پسندیوں کے خاتمے کے حوالے سے مذاکرے اور اس نوعیت کے پروگرام پیش کر کے اپنا کردار ادا کرے۔ انتہا پسندی ایک ناسور ہے اس کے خاتمے کے بغیر معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے زیر اہتمام ”پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے اثرات“ میڈیا کی ذمہ داریاں کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں کیا۔ سیمینار کی صدارت سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت میاں محبوب احمد نے کی۔ مہمان خصوصی پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی راہنما نوید چودھری اور پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی راہنما صدیق الفاروق تھے۔ مقرر سیاسی تجزیہ کار ایثار رانا تھے۔ سیمینار کی نظامت ڈائریکٹر حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ ابصار عبدالعلی نے کی۔ سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت میاں محبوب احمد نے کہا کہ ہر وہ بات جو میزان سے نکل جائے وہ انتہا پسندی ہے۔ حضور نے انسانی زندگی کے لئے تین اہم مواقع پر انسانوں کی راہنمائی فرمائی۔ میثاق مدینہ میں بتایا کہ مختلف قبیلوں اور مذاہب کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح رہنا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کر کے انسان کی تکریم کا درس دیا۔ خطبہ حجة الوداع کے موقع پر انسانوں کو ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کی تلقین کی۔ اگر ہم حضور کی تعلیمات کو عام کریں تو انتہا پسندی ختم ہو سکتی ہے۔ معاشرے میں سیاسی‘ معاشی سمیت کئی قسم کی انتہا پسندیاں ہیں اور ان تمام انتہا پسندیوں کا منبع امریکہ بہادر ہے اور امریکہ میں ایک مخصوص لابی ہے جس نے پوری دنیا کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ فضول قسم کے ٹاک شوز کی بجائے انتہا پسندی کے خاتمہ کے حوالے سے مذاکرے کرائے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی راہنما اور صدر آصف علی زرداری کے کوآرڈی نیٹر نوید چودھری نے کہا کہ آج الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے کچھ چینلز ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں بریکنگ نیوز تصدیق کے بغیر چلاتے ہیں جو زیادہ تر قیاس آرائیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسی بریکنگ نیوز سے دہشت گردوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور جس طرح یہاں ٹی وی چینلز پر نعشیں دکھائی جاتی ہیں دوسرے ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا نیا ہے اور ابھی سیکھ رہا ہے۔ میڈیا کو ایسی پالیسی بنانی چاہئے جس سے دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ میڈیا کو ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں غلط بریکنگ نیوز نہیں چلانی چاہئیں۔ دہشت گردی ایک ناسوار ہے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس کو ختم کرنا چاہئے اور میڈیا کو اس حوالے سے پروگرام پیش کرنے چاہئیں۔ مسلم لیگ ن کے راہنما صدیق الفاروق نے کہا کہ جب انسان انا پسند ہو جائے تو وہ انتہا پسند بن جاتا ہے اور جب انسان اپنے آپ کو آئین اور قانون کے حوالے کر دے اس وقت انتہا پسندی ختم ہو جاتی ہے۔ جب معاشرے میں انصاف نہیں ہو گا تو متاثرہ شخص انصاف کے لئے خود ہتھیار اٹھائے گا جس سے انتہا پسندی کو تقویت ملتی ہے۔ فرقہ پرستی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ جہاں کا غلط تصور پیش کیا جا رہا ہے۔ میڈیا کو چاہئے اپنے پروگراموں کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کرے۔ سیاسی تجزیہ کار ایثار رانا ہے کہا کہ پاکستان میں انتہا پسندی کا باقاعدہ تصور 9/11 کے بعد سامنے آیا جب امریکہ اور باقی دنیا کی طرف سے کہا جانے لگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔ شروع میں لوگوں کو اس کی سمجھ نہ آئی بالآخر امریکہ پاکستانیوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گیا۔ اگر آپ سوچیں کہ انتہا پسندی کے ڈانڈے وہیں جا کر ملیں گے جہاں سے اس کے خلاف باتیں ہوتی ہیں۔ جو قومیں دوسروں کے ٹکڑوں پر پتلی ہیں وہ یہ طے نہیں کر سکتیں کہ انتہا پسندی کیا ہے جہاں تک پاکستان کے میڈیا کا تعلق ہے تو یہ اپنا کردار اچھے طریقے سے ادا کر رہا ہے۔ حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کو زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قابل برداشت نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ یہ عوام کو جو پہلے ہی خواندگی کی کمی اور تعلیم کی بے سمتی کی وجہ سے جذباتی رویوں کا شکار ہیں‘ مزید جذباتی بناتی ہے اور اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کا برسرعام مظاہرہ کر کے ریاست کی شہرت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ جن لوگوں کو ہم انتہا پسند عناصر کا نام دیتے ہیں وہ معاشرے کے اندر اپنے منظم نیٹ ورک کی وجہ سے خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ تعلیم کی کمی اور جذباتی طرز فکر کی وجہ سے بڑی تعداد میں پاکستانی ان انتہا پسند عناصر کی نہ صرف یہ کہ سیاسی حمایت کرتے ہیں بلکہ بعض مذہبی حوالوں سے ان کی مالی امداد بھی کرتے ہیں۔ مذہب تو محبت اور یکجائی کا درس دیتا ہے مگر ہمارے اکثر تعلیمی اداروں‘ خصوصاً دینی مدارس میں مذہبی تعلیم کو جوڑنے کی بجائے تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک طرف بڑی طاقتیں دنیا کو ایک انتہا یعنی عالم کاری (گلوبلائزیشن) کی طرف لے جا رہی ہے دوسری طرف ہم اپنی بے منصوبہ بے سمت تعلیم کی وجہ سے ایک دوسری انتہا یعنی اپنے اپنے فرقوں کے نظریات تک محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اس طرح ہمارے معاشرے میں جو خام مال پیدا ہو رہا ہے اس سے سلطنت کو نقصان اور انتہا پسند یا خود ساختہ جہادی عناصر کو بڑا فائدہ ہو رہا ہے۔ یہ لوگ میڈیا پر بھی مختلف حوالوں سے اثر انداز ہوتے ہیں چونکہ ہمارے ہاں آزاد میڈیا اور ذمہ دار میڈیا میں فرق سمجھنے والے لوگ کم ہیں اور حکومتی سطح پر میڈیا کی مانیٹرنگ کا کوئی م¶ثر نظام بھی وضع نہیں کیا جا سکا لہٰذا میڈیا کو یہ بتانا مشکل ہے کہ ”قومی مفاد“ کیا ہے۔