سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ چاہے احتساب عدالت ہے چاہے ہائی کورٹ ہے یا سپریم کورٹ ہر جگہ نواز شریف کے خلاف ہی مقدمے چل رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے میڈیا ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ان خیالات کا اظہار نواز شریف نے احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔مریم نواز اورکیپٹن (ر) محمد صفدر بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔وفاقی وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ،وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز،وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب،وزیر مملکت برائے وزیر داخلہ محمد طلال چوہدری، وزیر مملکت محسن شاہ نواز رانجھا اور دیگر لیگی رہنماء بھی اس موقع پر موجود تھے نواز شریف کا کہنا تھا کہ چاہے احتساب عدالت ہے چاہے ہائی کورٹ ہے یا سپریم کورٹ ہے سب جگہ نواز شریف کے خلاف ہی مقدمے چل رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے میڈیا اس کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے بلکہ ڈھونڈنے کی کوشش کیا کرنی ہے سب کچھ سامنے ہے ان کا کہنا تھا کہ صحافی جا کر چیک کر لیں ہر جگہ میرا ہی مقدمہ چل رہا ہے۔اس موقع پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 28 جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلہ میں ضمنی ریفرنس کی بات صرف اس حد تک تھی کہ نیا اثاثہ سامنے آنے کو اس کے بارے میں ضمنی ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے یا باہمی قانونی مشاورت کے جواب میں کوئی ایسی شہادت آئے تو ضمنی ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے یہ جو ضمنی ریفرنس آیا ہے اس نام نہاد سپلیمنٹری ریفرنس میں کوئی نیا اثاثہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی میوچل لیگل اسسٹنس کی روشنی میں نیب کوئی جواب لا سکی ہے اس میں وہی پرانے الزامات ہیں بلکہ ضمنی ریفرنس کا اس وقت آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ استغاثہ اعتراف کر رہا ہے کہ اس کا پہلا ریفرنس کمزور تھا اوراس میں کافی شہادت نہیں تھی اس ضمنی ریفرنس میں بھی کوئی نئی شہادت نہیں ہے اس ضمنی ریفرنس میں بھی جو کاغذ لگائے گئے ہیں یہ وہی سارے کاغذات ہیں جو جے آئی ٹی کی رپورٹ کا پہلے ہی حصہ تھے اس ضمنی ریفرنس میں مریم نواز کے بارے میں جو گزشتہ ریفرنس میں الزام تھا کہ یہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کی بینیفشل مالک ہیں وہ الزام بھی ضمنی ریفرنس میں نہیں ہے اس ضمنی ریفرنس کا آنا اور اس کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی روشنی میں نئے اثاثے کا نہ آنا اس بات کا اعتراف ہے کہ اس مقدمہ میں کوئی ایسی قابل ذکر شہادت نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس کیس کا فیصلہ میاں نواز شریف کے خلاف ہو سکے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024