دونوں طرف نسبتاً ناتجربہ کارحکومتیں ہیں۔ ناتجربہ کاری جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اور عمران خان حکومت کے درمیان ایک حالیہ فون کال کے مندرجات پر اختلاف بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کو امریکہ کا نظم و نسق سنبھالے ہوئے ایک ڈیڑھ سال ہی ہوا ہے۔ اس مختصر عرصے میں صدرٹرمپ کا زیادہ تر وقت میڈیا اور ان کے مخالفین کے ساتھ لڑتے جھگڑتے گزرا ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ وہ ٹی وی بہت دیکھتے ہیں اور کافی وقت آس پاس آگ بجھانے میں صرف ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ جزئیات پسند نہیں یعنی معاملات کی تفصیلات میں جانا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے اکثر معماملات ، یعنی اہم انتظامی امور ان کے وزراء اور دیگر نائبین کے ہاتھ میں ہیں۔ صدر ٹرمپ کو ذاتی ، کاروباری اور خاندانی حوالے سے انتہائی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ انکے ذاتی وکیل مائیکل کوہن کی استغاثہ کے ساتھ ڈیل اور خطرناک جرائم کا اعتراف جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ کو بھی براہ راست ملوث کیا ہے صدر ٹرمپ کے ٹویٹر پر بیانات اور انکا ردعمل ظاہر کرتاہے کہ ٹرمپ کو اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ٹرمپ کے ایک اور ساتھی اور انکی انتخابی مہم کے سابق چیرمین پال مینافورٹ بھی عدالت سے مجرم قرارپائے، اور ٹرمپ کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنے۔ اس مختصر سی تمہید سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی توجہ کس قدر اندرونی اور خارجہ امور پر مرکوز ہوگی۔ مبصرین کے مطابق خارجہ امور کے شعبے میں وہ جن ممالک پر تھوڑی بہت توجہ دیتے ہیں اس کا مقصد بھی اندورنی پوائنٹ اسکورنگ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایران یا شمالی کوریا۔ اسکے علاوہ بین القوامی تجارت کے حوالے سے انکا نشانہ یورپ اور امریکہ بھی بنتے رہتے ہیں۔دوسری طرف پاکستان میں نئی حکومت آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ بیانات اور فیصلوں سے ناتجربہ کاری ٹپک رہی ہے۔ غیر ضروری اور غیر اہم باتوں پر لاحاصل بحث میں وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ اعلیٰ سطحی حکومتی ارکان ایسی باتوں میں الجھ کر اپنا اور دوسروں کا دماغ خراب کرہے ہیں جو باآسانی نچلی سطح پر بھی کیا جاسکتا ہے، لوگوں کا دماغ خراب کیے بغیر۔ وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کو چاہیئے کہ اس انتہائی اہم وقت پر تنقید سے بالا تر ہوکر سوچیں اور دامن جھاڑ کر آگے بڑھنا سیکھیں ، پاکستان کی بہتری بھی اسی میں ہے کے مخالفین بھی تنقید برائے تنقید سے اجتناب کریں۔ نئی حکومت کو موقع دیں۔ پاکستان ایک انتہائی اہم تبدیلی سے گزر رہا ہے ، اندرونی اور بیرونی حالات سخت تشویشناک ہیں۔ عمران خان امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں زیادہ مقبول نہیں ہیں۔ چند رسمی بیانات اور اخباری مضامین کے علاوہ پاکستان میں اس تبدیلی کا کوئی زیادہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ عوامی سطح پر سوائے انگلینڈ کے پاکستان میں نئی حکومت کے بارے مکمل بے خبری ہے۔ یہ کوئی منفی بات نہیں بلکہ ایک رحمت ہے۔ میرے خیال میں یہ پاکستان اور عمران خان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور پروگرامز پر توجہ مرکوز رکھیں اور انٹرنیشنل میڈیا سے جتنا دور رہیں اتنا ہی بہتر ہے۔ انکا قرب پنجاب پولیس کی دوستی کے مترادف ہے۔صرف پاکستانی اخبارات اور ٹی وی شوز سے علم ہو کہ آجکل امریکہ اور پاکستان میں کوئی شدید تنازع چل رہا ہے۔ گوگل کھنگالا ، ادھر ادھر معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن سوائے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور چند تھنک ٹینک کے مبصرین کے علاوہ کہیں کچھ نظر نہیں آیا۔ یہ عمران خان حکومت کہ ناتجربہ کاری ہے کہ ایک معمول کی روٹین کال کو اپنے تئیں اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا۔ اگر دہشت گردی کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ نے کچھ کہہ بھی دیا تھا تو وہ کونسی نئی بات تھی وہ تو ایک منترا ہے جو امریکی پالیسی ساز حلقوں میں زبان زد عام ہے۔ یہ منترا پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے آناً فاناً ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ اسکی جڑیں گہری اور وجوہات بہت گھمبیر ہیں۔ حیرت تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر ہے جو اپنے تجربہ کے باوجود اور پاکستان کے حالات کی نزاکت سے واقفیت کے باوجود اس جذباتی کھیل میں حصہ لے بیٹھے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں آنے والی تبدیلی کو بہت احتیاط اور دانشمندی سے سنبھالا جائے نادانی اور جلد بازی سے یہ تبدیلی ایک ناخوشگوار اور ناکام تجربہ میں بدل سکتی ہے۔ یاد رکھنا ہوگا کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت افغانستان میں ہے لیکن پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہر جگہ ہے۔ ابھی کشتیاں جلانے کا وقت نہیں آیا۔امریکی میڈیا رپورٹ کررہا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان میں جاری جنگ کی نجکاری کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ یہ کوئی نیا شوشہ نہیں یہ اس سے پہلے بھی چھوڑا جاچکا ہے۔ افغان جنگ امریکہ میں ایک غیر مقبول جنگ ہے۔ امریکی عوام کی اس میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور خرچہ بے پناہ ہے۔ صدر اوباما نے بھی کئی بار کوشش کی اس غیرمقبول اور غیر ضروری جنگ سے جان چھڑائی جائے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ ٹرمپ بھی امریکہ کی اس طویل ترین جنگ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے کئی ممکنہ اقدامات پر غور کررہے ہیں۔مشہور امریکی پرائیوٹ آرمی (کالعدم) بلیک واٹر کے بانی اوربدنام زمانہ بزنس مین ایرک پرنس نے افغان جنگ کی نجکاری کی تجویز کو ایک بار پھر بڑے زور شور سے اٹھایا ہے۔ ایرک پرنس صدر ٹرمپ کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ انکی ایک بہن صدر ٹرمپ کی کابینہ میں وزیر تعلیم ہیں۔ یہ ایک بڑا خطرناک منصوبہ ہے جسکی مخالفت خود امریکی محمکہ دفاع بھی کررہا ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ایرک پرنس نے ایک ایسی بات کی جس سے میرے کان کھڑے ہوئے اور ساتھ ساتھ تشویش بھی لاحق ہوئی۔
اسی انٹرویو میں ایرک پرنس کہتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی بھی تو ایک پرائیوٹ کمپنی تھی جس نے برطانوی سامراج کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ھندوستان میں قدم رکھا تھا۔ اسی لیے اسے کمپنی بہادر کہا جاتا تھا۔اگر ٹرمپ اپنے اس ٹرم میں یا ممکنہ اگلی ٹرم میں افغان جنگ کی نجکاری کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر دنیا کا کوئی حصہ پرائیوٹ فوج سے محفوظ نہیں رہے گا۔ ایک ایسی نظیر قائم ہوجائیگی ( ایرک پرنس کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ نظیر پہلے ہی قائم کردی تھی) کہ ڈالراور کنٹرول کے بھوکے ،لالچ کے مارے ہوئے کئی بزنس مین اسی طرح طاقت کے مراکز میں لابی کرتے رہیں گے اور دنیا کے کمزور علاقوں میں تباہی اور بربادی پھیلا کر کروڑوں اربوں ڈالر اپنی جیبوں میں ٹھونستے رہیں گے۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024