سعودی عرب میں 24 گھنٹے کے کرفیو کے خاتمے کے بعد صبح نو بجے سے پانچ بجے تک کرفیو میں نرمی کی گئی ہے ماسوائے ان علاقوں کے جہاں سے مریض زیادہ ملے ہیں۔ سعودی حکومت کے اس اقدام سے کچھ دفاتر اور فیکٹریاں اپنا کام شروع کرچکی ہیں اور زندگی تقریبا تیس فیصد نا ر مل ہوگئی ہے ۔ ایک وجہ رمضان المبارک کے دوران اشیاء خوردو نوش کی خریداری میں کرفیوکے نئے اوقات عوام کیلئے سہولیات پیدا کررہے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے حفظان صحت کا، وہ مکمل طور پر یہاں عوام نے اپنایا ہوا ہے ۔ فی الحال مشکل ہے ان پاکستانیوںکی جو یہاں چھوٹی دُکانوں پر کام کرتے ہیں ، مارکیٹوںمیں کام کرتے ہیں، ٹیکسی ڈرائیور ہیں، وہ اپنی اجرت تو ایک طرف ، کھانے پینے کی اشیاء کے حصول کیلئے بھی پریشان ہیں۔ قونصلیٹ اور سفارت خانے نے دعوے تو کئے ہیں کہ انہوںنے ضرورت مندوں تک اجناس پہنچائی ہیں۔ مجھ سے ضرورت مندوں نے رابطہ کیا میں نے انکے نام پاکستانی ارباب اختیار تک پہنچادیئے تھے۔ تین ہفتے بعد بھی ان تک کچھ نہ پہنچا۔اس بات سے قطع نظر کہ وہ سعودی ہے یا غیر ملکی ( زیادہ تر غیر ملکی ہی ہیں ) سعودی اداروں ، ہلال احمر نے سعودی فرما رواںکے حکم پر انہیں فوری اناج پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔ ہمارے سفارت کاروںکی ذمہ داری تھی کہ وہ ان سے رابطہ کرکے پاکستانی ضرورت مندوں کو غذائی اجناس پہنچاتے ۔
وزیر اعظم عمران خان اوور سیز پاکستانیوں کا خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی اب بہت واضح الفاظ میںکہا ہے کہ نمبر ۱۔ پاکستانیوں کا ڈیٹا فراہم کیاجائے۔نمبر ۲۔ غذاء انکے گھروں تک پہنچائی جائے۔ امریکہ ، لندن ، یورپی ممالک میں جہاںپاکستانی ہیں وہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ ہے تو خلیجی ممالک میں جہاں ہماری انسانی تجارت ہوتی ہے ، تعمیراتی مزدور ، اور جنہیں’’بلو کالر ‘‘کہا جاتا انکی ایک بڑی تعداد ہے ، سعودی عرب میں 27 لاکھ پاکستانی ہیں ۔ اگر وزیر اعظم نے سعودی عرب میں پاکستانی سفارتکاروں سے پاکستانیوںکا ڈیٹا مانگا، وہ تو ملنے سے رہا۔ چونکہ یہاںایسا کوئی کام کبھی ہوا ہی نہیں، سفارت کار تین سال نوکر ی کھڑکاتے ہیں لہٰذا ڈیٹا کبھی بنا نہیں ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مدد کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کیا جائے۔ ریلیف کے نام پر جو ذمہ داریاں سعودی عرب پر عائد ہوتی ہیں وہ ایک ماہ پہلے ہی خادم الحرمین الشریفین نے پوری کردی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی نے خدا خدا کرکے یہ فیصلہ کیا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستانیوں سے رابطہ کرکے انکے مسائل معلوم کرینگے ۔ اعلان خوش آیند تھا ، مگر یہ کیا ؟؟ ویڈیو پر ہونے والی پاکستانی کمیونٹی کیلئے یہ بھی حکم ہوا کہ جدہ سے دس ، ریاض سے دس کمیونٹی ممبران کی ویڈیو پر معاون خصوصی سے بات ہوگی ۔ ایسے میں سفارت کار انہیں لوگوںکو وقت دیتے ہیں جو سب اچھا کی رپورٹ دیں۔ جدہ میں بھی اور ریاض میںبھی 27لاکھ پاکستانیوںکی ترجمانی 10 افراد کرینگے۔ جب تک یہ تحریر قارئین تک پہنچے گی تو وہ تعریفی سیشن ہوچکا ہوگا اور میڈیا سیشن جس میں کسی صحافی کو دعوت نہیں دی گئی ، تفصیلات میڈیا پر آچکی ہونگی کہ معاون خصوصی نے مسائل حل کردیئے۔ یہ پیشگی کہہ رہا ہوںخدا کرے ایسا ہی ہو۔ اسکول کے طلباء کے فیسوں کامسئلہ، اساتذہ کی تنخواہوںکا مسئلہ وغیرہ۔ اسکولوںمیںسالانہ چھٹیاں ہونیوالی ہیں سینکڑوں طلباء و طالبات چھٹی گزارنے گھر جانا چاہتے ہیں۔ ان کیلئے PIA منافع خوری کے بغیر فلائٹ چلا چکی ہو۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اس وائرسی جنگ میں جس طرح تمام دنیا کا نیا ظہور ہورہا ہے ۔ اسی طرح دیر آید درست آید کی طرح بہتری کی طرف جاچکی ہے ۔ اپنی ہی حکومت میں کرپشن کا انکشاف ہونے پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ عیاںکردی اور قریب ترین لوگ جو ملوث تھے انکے خلاف مزید تحقیقات کا حکم۔۔۔ اب یہ اور بات ہے کہ حزب اختلاف والے تو بغیر تحقیقات صر ف الزام کی بنیاد پر جیل چلے جاتے ہیں۔ شوگر تحقیقات پر ایسا کچھ نہیںہوا ۔البتہ یہ تو کریڈٹ حکومت کو جاتاہے کہ حکومت کے اعلی اہلکاروں کیخلاف انکوائری ہوئی جبکہ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا ۔
وزیر اعظم کو اس بات کا بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی میڈیا ٹیم کو بہتری کی طرف لیجانا شروع کردیا ہے۔ تجربہ کار اور تعلیم یافتہ ، میڈیا کو سمجھنے والے افراد کو وزیر اطلاعات اور معاون خصوصی تعینات کردیا اور پی پی پی سے لائی گئی محترمہ کو فارغ کردیا ۔ یہ ہمارے میڈیا کی منافقت ہے کہ جیسے ہی انہیں علیحدہ کیا گیا میڈیا میں ڈاکٹر صاحبہ پر کرپشن کے الزامات سامنے آنے لگے ۔ یہ تو مسئلہ ہے میڈیا کا جس کو مولانا طارق جمیل جب سچ بولنے کا کہتے ہیں تو اپنے آپ کو میڈیاکا کرتا دھرتا کہنے والے علم سے بہرہ ور شخص کے خلاف صف آراء ہوجاتے ہیں ۔ عمومی طور پر مولانا کی دعاء کا لفظ لفظ صحیح تھا ، مگر انہیںکٹہرے میںلاکر معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔
بات چلی تھی وزیر اعظم کی نئی میڈیا ٹیم سے ، سینٹر شبلی فراز جتنے حکومت میں مقبول ہیں اتنے ہی حزب اختلاف میں بھی عزت و احترام سے جانے جاتے ہیں۔ دوسری جانب میڈیا میں جدت لانے کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل ( ر) عاصم سلیم باجوہ کی تقرری قابل تحسین ہے جو میڈیا سے کچھ میڈیا کو اعتماد میں لینے کے قائل ہیں ۔ جنرل عاصم باجوہ نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کو اپنے دور میں ڈیجیٹل دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا تھا،اسی طرح اب وہ موجودہ وزارت اطلاعات کو جدت سے سنواریںگے۔ جنرل عاصم کے دور میں آئی ایس پی آر نے اہم مواقع پر میوزک اور نغموں کو ریلیز کرنے کی ریت ڈالی اور ان میں سے کچھ نغمے مثلا 'بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے' بہت مشہور ہوئے تھے۔اسکے ساتھ انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو دوبارہ سے بہتر بنانے کیلئے خاصی کوشش کی۔ آئی ایس پی آر کی اپنی فلم 'وار' مشہور ہوئی اور فن کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024