آجکل سیاستدان جس قسم کے بیانات دے رہے ہیں۔ انہیں پڑھ کر مجھے خوشی ہے کہ پاکستان میں مزاح نگاری فروغ پا رہی ہے اور بہت جلد پاکستان مزاح نگاری میں خود کفیل ہو جائیگا۔ ممکن ہے ہم مزاح نگاری ایکسپورٹ کر کے زرمبادلہ کے بڑے ذخائر کما سکیں اور ڈیپریشن کا شافی علاج اس نہج پر کر سکیں مثلاً الطاف بھائی جان آجکل کہہ رہے ہیں حالات ٹھیک نہیں اور یہ کہ صرف سندھ میں ہی کیوں تحریب کاری اور بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا کہ مشرف کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے۔ اس سے فوج کی بدنامی ہو رہی ہے“۔ کہتے تو الطاف بھائی ٹھیک ہیں اور حق بات کہہ بیٹھے ہیں۔ یہ وہی پرویز مشرف ہیں جو جب”صدر جنرل پرویز مشرف“ تھے تو ان سے ہاتھ ملانے، تصویر بنوانے اور ملاقات کرنیوالوں کی فہرست بہت طویل ہوتی تھی۔ جب پرویز مشرف اے پی سی بلاتے تھے اور سیاستدانوں کو مدعو کرتے تھے تو سب جوق درجوق جاتے تھے اور اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے۔ اکثر کی کوشش ہوتی تھی کہ انہیں صدر جنرل مشرف کے پہلو میں جگہ ملے۔ آج وہی سیاستدان بلکہ انکے دور میں پانچ سال سے زائد عرصہ وزارتوں کے مزے لوٹنے والے کہاں ہیں۔ کہاں گئے شیخ رشید، معین حیدر، بابر غوری، اویس لغاری، وقاص اکرم، ہمایوں اختر خان، مولانا فضل الرحمان ،پرویز الٰہی، شجاعت حسین، زبیدہ جلال فردوس عاشق اعوان، حنا ربانی کھر، عطیہ عنایت اللہ ، شاہین عتیق الرحمن اور بہت سے نمک خوار اور بادہ¿ نشین؟؟؟ اور سب سے بڑھ کر شوکت عزیز جو پورے پاکستان کو ٹیکسوں کے جال میں پھنسا کر اربوں روپے بٹور کر پھر کسی ٹھنڈے ملک میں مزے کر رہے ہیں جبکہ مشرف دور کے تمام وزراءاپنی وفاداریاں اور ایمان بیچ کر ضمیر پر برف کی سل رکھ کر دوسری پارٹیوں کی طرف سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ لو سو چوہے کھا کر ایک بار پھر ۔۔۔الطاف بھائی بھی لندن کے حسین آرام دہ فلیٹ سے بیان اور فتویٰ جاری کرتے رہتے ہیں انہیں چاہئے تھا کہ اخوت، جرا¿ت اور بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرویز مشرف کی پاکستان آکر بھرپور مدد کرتے۔ خالی خولی بیانات کا فائدہ؟ میاں نواز شریف اپنی ہر تقریر کا آغاز”زرداری کھلاڑی مداری“ سے کرتے ہیں جبکہ الیکشن کمشن کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی سزا نااہلی ہے لیکن الیکشن کمشن کے انصاف کے پیمانے شاید الگ الگ ہیں۔ خیر اب میاں نواز شریف نے تازہ بیان بذریعہ جلسہ سنا کر حیران کر دیا ہے کہتے ہیں کہ اقتدار میں آکر ایوانوں میں نہیں، عوام کے درمیان ہونگے۔1983ءمیں میاں نوازشریف سیاست میں چلے آ رہے ہیں۔ 1983 سے 2013ءتک 30 برسوں میں تو کبھی انہوں نے عوام کو یہ شرف نہیں بخشا۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے بھی وہ ایک بڑے حفاظتی سٹیج سے بلٹ پروف ڈائس سے خطاب کرتے ہیں اور پروٹوکول کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ظل سبحانی شہنشاہ اعظم جلال الدین اکبر کی ہڈیاں بھی قبر میں تڑخ کر رہ جاتی ہیں۔دوسری طرف چھوٹے میاں یعنی شہباز شریف بار بار دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک پیسہ کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ اسکے علاوہ شہباز شریف کا نعرہ ہے کہ”بدلا ہے پنجاب، بدلیں گے پاکستان“ کافی دلچسپ اور مزاحیہ نعرہ ہے، ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ آخر پنجاب کا کیا بدلا گیا ہے۔ پنجاب تو جوں کا توں ہی ہے بس بقول پرویز الٰہی کے جنگلا بس میں سارا خزانہ جھونک دیا ہے۔ لوگوں کے پاس بدعنوانی کے بڑے ثبوت ہیں اور وہ طیش میں آ کر الیکشن سے ایک دن پہلے کارروائی بھی ڈال سکتے ہیں۔ عمران خان بھی آج کل بہت شوخ ہو رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ”دہشت گرد کچھ دن صبر کر لیں، ہمیں نیا پاکستان بنانے کا موقع دیں“ یہ تو کھلم کھلا دعوت ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ عمران خان برسراقتدار آ کر نوے دن میں نیا پاکستان بنائیں گے اور خاص لابی انہیں خوب مال پانی بھجوائے گی تب دہشت گرد حملہ کر سکتے ہیں۔ اب تو ویسے ہی سیاستدانوں، حکمرانوں، بیوروکریسی نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ پاکستان کو جتنا نقصان حکمرانوں اور ان نام نہاد سیاستدانوں نے پہنچایا ہے، اتنا نقصان تو دہشت گردوں نے بھی نہیں پہنچایا ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ”عوام ہماری طاقت ہیں“ اس بیان کو پڑھ کر ہنسی قابو سے باہر ہو گئی۔بیچارے شہزادے جیسے بلاول کو کیا پتہ کہ عوام میں تو خود طاقت نہیں ہے۔ عوام میں تو ا تنی بھی جان نہیں کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکے۔ جس عوام میں خود اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کی سکت نہیں، وہ بلاول بھٹو جیسے طاقتور ہونہار کی طاقت کیسے بن سکے ہیں۔ پرویز الٰہی بھی آج کل پورے فارم میں ہیں اور مزاحیہ برجستہ پھبتیوں سے جلوس کو زعفران زار بنا دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے کام کم اور پروجیکشن زیادہ کی ہے اور ناکام سکیموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پرویز الٰہی کا یہ بھی خیال ہے کہ سائیکل اسلئے بھی جیتے گی کہ یہ بغیر بجلی پانی گیس پٹرول سی این جی کے چل جاتی ہے۔ سائیکل ہی پاکستانی عوام کا مستقبل ہے۔ بہت جلد پاکستان میں سائیکل لینڈ کروزر اور لیموزین سے بڑھ کر سواری مانی جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن مسرت شاہین کی سیاسی دلفریب اداکاری اور بڑھکوں کے باوجود اٹل ہیں اور فرماتے ہیں۔ ”ہم نے نیا پاکستان نہیں بنانا، موجودہ کو بچانا ہے“ حیرت ہے کہ پیسے، پرمٹ، پلاٹ اپنے لئے بچانے والے کو فکر ہے کہ انہوں نے پاکستان بچانا ہے۔ برسوں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن کر موج اور مال اڑاتے رہے لیکن کبھی کشمیر پر کھل کھلا کر بیان نہیں دیا اور نہ ہی ایک مختصر سے علاقہ کو واگزار کرا سکے لیکن اب الیکشن آتے ہی چالو ہو گئے ہیں۔ دو سابق وزرائے اعظم کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی اور ترجمان ایوان صدر نے الیکشن کمشن کو شکایتی خط لکھا ہے۔ الیکشن کمشن کو بھی غیر جانبدار ہونا چاہئے لیکن کہنا کچھ اور کرنا کچھ ہمارے ملک کا وطیرہ ہے، اقتدار کی ہوس میں جھوٹ کا کاروبار عروج پر ہے اور جھوٹ کی ماں منافقت عیش کر رہی ہےاللہ تیری شان یہ سیاستدانوں کی ادا ہےمحفل میں ہمیں دیکھ کر منہ پھیر لیا ہے
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024