حکومت نے بارہ سے انیس ربیع الاول تک منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق صوبے بھی ان دنوں میں ہفتہ عشق رسول منائیں گے۔ موجودہ حالات میں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ ویسے تو ہماری زندگیوں کا ہر لمحہ ہی عشق رسول میں گذرنا چاہیے۔ ہمارا ہر عمل ہی نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمارے لیے فلاح ہی ایسے اعمال میں ہے۔ ہمیں نبی کریم کی سنتوں پر عمل کرنا ہے اور ان کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ آج ہم اسی لیے مسائل کا شکار ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی پاک محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے اعمال میں اخلاص و مستقل مزاجی نہیں ہے، ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے، ہم ہر لمحہ پیارے نبی کی سنتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جب تک ہم اسلام کو زندگیوں میں نافذ نہیں کرتے ہم مسائل میں گھرے رہیں گے، کامیابی ممکن نہیں ہے۔ ہمیں ہر طرف سے مارپڑھے گی اور ہم کبھی فتح حاصل نہیں کر پائیں گے۔ حکومت کی طرف سے موجودہ حالات اور مغرب کی نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم سے دشمنی کے اقدامات کے بعد ایسے اتفاق رائے کی ضرورت تھی لیکن ہمیں اس کام کے لیے مخصوص دنوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں تک فرانس یا کوئی بھی ایسا ملک جو ایسی حرکت کرتا ہے اس کی مصنوعات یا اس کے سفارتی ساتھ تعلقات ختم کرنے کی بات ہے تو اس کا فیصلہ تمام مسلم ممالک کو حکومتی سطح پر کرنا چاہیے۔ ہمیں کسی سے آقائے دو جہاں کی حرمت کی بھیک نہیں مانگنی چاہیے۔ ہم طاقتور ہوں، امیر ہوں یا بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال ہوں اگر ہم نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت یا حرمت کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو ان چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ حکومت کو کیا سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسے معاملات میں بھی دنیاوی فائدے اور نقصان کا سوچتے اور جمع تفریق کرتے رہیں تو کس منہ سے روز محشر نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے سامنے پیش ہوں گے۔ فرانس ہو یا انگلینڈ، امریکہ ہو یا روس، چین ہو یا ڈنمارک، جرمنی ہو ہالینڈ یا دنیا کا کوئی بھی ملک ہو جہاں جہاں تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی حرمت پر کوئی بات ہو ہمیں اسی شدت سے جواب دینا چاہیے جو نبی محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت تقاضا کرتی ہے۔ آپ تو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں یہ کیسے بدبخت ہیں جو دشمنی، بغض اور حسد میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا اگر مغرب میں یہ چیزیں دہرائی جاتی ہیں تو یہ ہماری کمزوری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری طرف مسلم اْمہ کی طرف سے وہ درعمل نہیں دیا جاتا جو جانا چاہیے۔ ہمیں اس بارہ ربیع الاوّل سے ہی یہ عزم کرنا چاہیے اس ارادے کے ساتھ آگے بڑھیں کہ ہمارا ہر عمل نبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں کے مطابق ہو گا۔
تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دیں گے اور کہا جائے گا آپ ہی ہیں جن کے آنے پر یہ دروازہ کھلنا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرمان الٰہی ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت میں۔میںخود مدعی بنوں گا۔ایک تو وہ شخص کے جس نے میرے نام پر عہد کیا پھر وعدہ خلافی کی۔دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اْس کی قیمت کھائی۔اورتیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا پھر کام تو اس سے پورا لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔ رسول اللہ کا فرمان عالیشان ہے کہ جو شخص ماہ رمضان میں ایمان کے ساتھ اور اللہ سے جزا حاصل کرنے کی امید سے روزے رکھے اور نماز
قائم کرے تو خداوند عالم اس کے پچھلے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا۔ جو شخص شب قدر کو ایمان اور اجر الہیـ کی امید کے ساتھ عبادت کرے تو خالق کائنات اس کے گزشتہ تمام گناہوں کو بخش دیں گے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی کے بارے میں بدگمانی نہ کرو کیونکہ یہ بدترین جھوٹ ہے۔ کسی کے احوال کی ٹوہ میں نہ لگے رہو یعنی اس کے گھریلو معاملات مت تلاش کرو۔کسی کے سودے پر سودا مت کرو۔کسی سے حسد نہ کرو۔کسی سے بغض نہ رکھو۔ کسی کی غیبت نہ کرو۔ تم سب خدا کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔
ان تمام احادیث میں ہمارے لیے روز مرہ کے معاملات میں کس قدر ہدایت اور رہنمائی موجود ہے۔ ہم روزانہ لاتعداد جھوٹ بولتے ہیں، لوگوں کا حق کھاتے ہیں، لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، کسی کی مشکل کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حسد اور بغض کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ کسی نے اچھے کپڑے پہن رکھے ہیں تو اس سے حسد، کسی کے پاس اچھی گاڑی ہے اس سے حسد، کسی کے پاس اچھا کھانا ہے اس سے حسد، کسی کی بڑھتی ہوئی عزت اور مقبولیت سے حسد غرضیکہ ہم حسد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے حتیٰ کہ کسی کو ہر وقت خوش دیکھ کر بھی جلتے ہیں جب کہ یہ تمام چیزیں اللہ کی رحمت سے ممکن ہیں۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’عنقریب میرے بعد ظلم والے صاحب اقتدار لوگ ہوں گے جو شخص ان کے پاس گیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ظلم پر ان کی مددکی تو وہ مجھے سے نہیں اور میں ان سے نہیں" اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم سب کو اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ ہم کب ظالموں کا ساتھ دیتے ہیں اور کب تعلقات بچانے کے لیے کسی کے جھوٹ کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہم ہر وقت ایسے عمل کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ہمیں صراط مستقیم پر چلائے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جس کا کسی بھائی پر ذرہ بھی ظلم ہو وہ آج ہی دنیا میں اس کو حل کرا لے،قبل اس کے کہ قیامت قائم ہو کہ اس دن
نہ دینار ہو گا نہ درہم،وہاں ظالم کی نیکیاں لی جائیں گی اگر اس کے پاس نیکیاں ہوئیں تو ٹھیک، ورنہ اس کے مظلوم بھائی کی برائیاں لے کر اس پرڈال دی جائیں گی’’ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ تم وفات پائے ہوئے لوگوں کی برائی مت کرو۔ تاجدارِ انبیاء کا فرمان ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ مہربان ہے اور مہربانی کو پسند فرماتا ہے۔ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ غریبوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر مسلمان کو سلام کرو چاہے تمہاری اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں کو زندہ کرنے والوں میں شامل کرے۔ اللہ ہمیں بغض، حسد، لالچ سے محفوظ فرمائے۔ ہر طرف پریشانی کے دور میں نبی محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کا ذکر ہی ہمیں مسائل اور پریشانیوں سے نکال سکتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو نئی نسل کو سیرت النبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف لانا ہے۔ ہمیں جھوٹ، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، ملاوٹ، بددیانتی، بداخلاقی سے بچنا ہے۔ ہمارے مسائل کی وجہ ہی نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل نہ کرنا ہے جب کہ ہم اس کا علاج اور طریقوں سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں قرآن و سنت کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024